2002ء میں عمران خان کو یقین تھا وہ قومی اسمبلی کی سو نشستیں جیت جائینگے
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
جب پیپلزپارٹی کو یقین ہے کہ اس بار وہ نہ صرف وفاق میں بلکہ پنجاب میں بھی حکومت بنائے گی اور جب جماعت اسلامی اس یقین سے سرشار ہے کہ ووٹر اس مرتبہ کامیابی کا سہرا اس کے سر سجائیں گے، ایسے میں اگر تحریک انصاف اپنی آنے والی حکومت کے پہلے سو دن کا منشور پیش کر رہی ہے اور وزارتوں کے لئے نامزدگیاں بھی کر رہی ہے تو کچھ غلط نہیں کر رہی، ہر جماعت جو سیاست میں حصہ لیتی ہے یا انتخابات لڑتی ہے اس امید پر ایسا کرتی ہے کہ کامیابی اس کے قدم چومے گی، دنیا کے جمہوری ملکوں میں تو جو جماعتیں حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی ہیں وہ حکومت بنانے کے لئے بھی اپنی ٹیم تیار رکھتی ہیں۔ اس لئے اگر تحریک انصاف حکومت سنبھالنے کی تیاری کر رہی ہے تو بھی یہ اس کا حق ہے، لیکن اگر کسی جماعت کا ماضی اس کے مستقبل کی کوئی شہادت دیتا ہے تو تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سو دنوں کے ایجنڈے کا جائزہ لینے کے لئے ہمارے سامنے کے پی کے کی پوری حکومت ہے جس میں تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی آخر تک شریک حکومت رہی اور ابھی ہفتہ دس دن پہلے مستعفی ہوئی ہے۔ اس مخلوط حکومت کے ابتدائی ایام میں قومی وطن پارٹی بھی شریک حکومت تھی لیکن اس کے وزراء پر عمران خان نے کرپشن کا الزام لگا کر انہیں وزارت سے نکال دیا، پھر کئی مہینوں بعد اس جماعت کو دوبارہ شریک حکومت کر لیا گیا۔ دوسری مرتبہ بھی نکال دیا گیا، لیکن اب کی بار کرپشن کا الزام لگانے کی بجائے یہ الزام لگایا گیا کہ قومی وطن پارٹی نے نوازشریف کے خلاف جدوجہد میں اس کا ساتھ نہیں دیا۔
یہ تو دوسری جماعتوں کے ساتھ تحریک انصاف کا روّیہ تھا لیکن خود اپنے ارکان اسمبلی پر بھی اس نے کروڑوں روپے لے کر سینیٹ میں ووٹ دینے کا الزام لگایا اور اس جرم میں ان ارکان کو پارٹی سے نکال دیا۔ اس جماعت کا دعویٰ تھا کہ اس نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بڑی ترقی کی ہے لیکن زمینی حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے، البتہ دعوے ضرور سامنے آتے رہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ تحریک انصاف نے صوبے میں کروڑوں درخت لگائے ہیں۔ اس دعوے کو جھٹلانے والے بھی بہت ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ اس درخت شماری میں وہ چالیس فیصد خود رو پودے بھی شمار کر لئے گئے جن کی نہ کاشت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ پرواخت کی، یہ خود ہی اگتے اور خود ہی پروان چڑھتے ہیں لیکن ان کا اندراج بھی کاشت شدہ پودوں میں کر لیا گیا اور وہ نرسریاں بھی ظاہر کر دی گئیں جہاں سے یہ پودے ’’خریدے‘‘ گئے تھے۔ اب ظاہر ہے اگر پودے خریدے گئے تھے تو ان کی ادائیگی تو ضروری تھی۔
عمران خان 2002ء کے الیکشن سے پہلے بھی خود کو وزیراعظم سمجھے بیٹھے تھے۔ جنرل پرویز مشرف راوی ہیں کہ انہوں نے عمران خان کو بلایا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ مسلم لیگ (ق) کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیں تو انہیں فائدہ ہوگا لیکن عمران خان اس وقت بھی ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور چودھری صاحبان کا تو نام تک سننے کے روادار نہ تھے۔ جنرل پرویز مشرف کہتے ہیں کہ اس وقت ان کے خیال میں عمران خان چھ سات نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں تھے لیکن جب ان کی عمران خان سے ملاقات ہوئی تو وہ یہ سن کر ششدر رہ گئے کہ عمران خان تو ایک سو نشستیں جیتنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اب ایسی صورت میں عمران خان، جنرل پرویز مشرف کا مشورہ کیونکر قبول کر سکتے تھے جب وہ ایک سو نشستیں جیتنے کے بارے میں نہ صرف پرامید تھے بلکہ اس سے کم پر ’’رضامند‘‘ ہی نہ ہوتے تھے، بہرحال 2002ء کا الیکشن ہوا تو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود حکومت سازی کی پوزیشن میں نہ تھی، اس کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے تب کہیں جا کر ایک ووٹ کی اکثریت سے میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بن سکے، ان ووٹوں میں عمران خان کا بھی ایک ووٹ شامل تھا، جو اس الیکشن میں ان کا واحد ووٹ تھا۔ عمران خان اپنے اندازے کے مطابق سو نشستیں جیت سکے نہ جنرل پرویز مشرف کا خیال درست ثابت ہوا کہ وہ چھ سات نشستیں جیت جائیں گے۔ اس وقت بھی عمران خان نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے انہیں وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی تھی، جبکہ جنرل صاحب کا کہنا ہے کہ انہیں ایسی پیشکش کبھی نہیں کی گئی، ویسے بھی ایک نشست کی بنیاد پر وزیراعظم کی خواہش رکھنا سیاست سے نابلد ہونے کی دلیل ہے۔ 2002ء کے بعد 2008ء میں الیکشن ہوئے تھے جن کا عمران خان اور بعض دوسری جماعتوں نے بائیکاٹ کر دیا تھا، پھر 2013ء کے انتخاب میں بھی عمران خان کو وزیراعظم ہونے کا پکا یقین تھا لیکن جب وہ نہ بن سکے تو ان کے کان میں کسی سامری نے یہ پھونک مار دی کہ دھاندلی ہوگئی تھی ورنہ ان کی وزارت عظمیٰ تو کہیں نہیں گئی تھی بس پھر کیا تھا عمران خان اپنی اس گمشدہ متاع کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ 2014ء کے ماہ اگست میں تو انہیں یقین تھا کہ وہ کسی دن اچانک سو کر اٹھیں گے تو وزیراعظم ہوں گے۔ اس لئے وہ کہتے تھے کہ وہ نوازشریف کے استعفے کے بغیر واپس نہیں جائیں گے، ایک بار انہوں نے کہا کہ انہیں ایک برس بھی بیٹھنا پڑا تو بیٹھیں گے لیکن استعفے کے بغیر نہیں جائیں گے۔ وہ ایک برس تو نہیں اس کا ایک تہائی ضرور بیٹھے رہے لیکن استعفا نہ ملا، البتہ اس عرصے میں لوگوں کو مفت میوزیکل شو دیکھنے کو ضرور ملتے رہے۔ اس کا نتیجہ بھی یہ نکلا کہ شو کا انتظام کرنے والے فن کار اب قومی اسمبلی کی رکنیت کا ٹکٹ مانگتے ہیں، دیکھتے ہیں ان سے کیا سلوک ہوتا ہے۔
عمران خان کے ساتھی انہیں ابھی سے وزیراعظم کا پروٹوکول دینے لگے ہیں، ان کی پریس کانفرنس کو اس طرح منظم کیا جاتا ہے جیسے وہ وزیراعظم ہوں۔ بنی گالہ میں ایک بار پریس کانفرنس سے پہلے قومی ترانہ بھی بجا دیا گیا تھا، اب اسد عمر انہیں وزیراعظم کہتے ہیں جبکہ عمران خان کی نظروں میں وہ ملک کے اگلے وزیر خزانہ ہیں۔ ایک اور صاحب کو ماحولیات کا محکمہ دے دیا گیا ہے، بہت سی دیگر وزارتیں بھی الاٹ کر دی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ اس امید پر کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف ’’کلین سویپ‘‘ کر رہی ہے، بظاہر اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سارے ’’الیکٹ ایبلز‘‘ ان کے پاس آ گئے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ امید ان ستارہ شناسوں نے دلا دی ہے جنہوں نے 2013ء کے انتخابات میں بھی انہیں وزیراعظم بنا دیا تھا، ایسے ہی ایک ستارہ شناس نے ایک دوسرے صاحب کو بھی وزارت عظمیٰ کی خوشخبری سنا کر ان سے خلعت وصول کر لی تھی لیکن دونوں آج تک وزیراعظم نہیں بن سکے۔ اب سو دنوں کا پروگرام تو بن گیا ہے لیکن الیکشن جیتنے کا تمام تر انحصار ان ’’الیکٹ ایبلز‘‘ پر ہے جو مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر ان کی چھتری پر آ بیٹھے ہیں۔ اب اگر یہ ’’الیکٹ ایبلز‘‘ الیکشن نہ جیت سکے تو کیا ہوگا؟ اس سوال پر غور کرنے کی عمران خان کو تو فرصت نہیں لیکن کیا ان کی پارٹی میں ایک بھی رجل رشید نہیں جو انہیں باور کرائے کہ حضور وزیراعظم بننے کے لئے قومی اسمبلی کی 172 نشستوں کی ضرورت ہے جو دنیا کے کسی فراخ دل ستارہ شناس نے بھی ان کی جھولی میں نہیں ڈالیں۔
یقین