فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر433

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر433
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر433

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’چکوری ‘‘ کے لیے انیس دو سانی نے کچھ اور تجربے بھی کیے تھے ۔ مثلاً موسیقار روبن گھوش کے لیے اختر یوسف نے نغمات لکھے تھے ۔ ندیم جو کہ گلوکار بننے گئے ان سے ایک بھی گانا نہیں گوایا گیا ۔ اس فلم میں احمد رشدی اور مجیب عالم کی آوازوں میں گانے ریکارڈ کیے گئے تھے ۔ ’’چکوری ‘‘ اپنی موسیقی کے حوالے سے بھی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اس کی کہانی سادہ رومانی اور بہت عام فہم تھی ۔ دراصل یہ ایک لو اسٹوری تھی ۔ بہت اچھی موسیقی ‘ خوب صورت لوکیشنز اور نئی فلمی جوڑی کی وجہ سے اس فلم کو بے پناہ کامیابی حاصل ہوئی ۔ یہ ۷۵ ہفتوں سے بھی زیادہ چلی اور اس نے کئی نگار ایوارڈ حاصل کیے تھے ۔ 

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر432 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’چکوری ‘‘ کی عدیم المثال کامیابی میں شاید قسمت کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ سبھی کے ستارے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوگئے تھے جن کی وجہ سے ایک سپرہٹ اور یاد گار فلم وجود میں آئی تھی ۔ ندیم اور شبانہ راتوں رات سپر اسٹار بن گئے تھے۔ مغربی پاکستان کے فلم ساز اور ہدایت کار ان دونوں کو اپنی فلموں میں کاسٹ کرنے کے لیے بے تاب تھے ۔ ندیم کی دوسری فلم ’’ چھوٹے صاحب‘‘ تھی۔ یہ ایک مزاحیہ فلم تھی اس کے فلم ساز احتشام اور ہدایت کار مستفیض احتشام صاحب کے چھوٹے بھائی تھے اور احتشام صاحب ’’چکوری ‘‘ کی ریلیز کے کچھ عرصے بعد ہی ندیم کے خسربن گئے تھے لیکن اس فلم کے سرمایہ کار بھی انیس دوسانی ہی تھے ۔ ندیم کے ساتھ شبانہ نے مرکزی کردار کیا تھا۔ یہ ایک خالص مزاحیہ فلم تھی علی حسین اس کے موسیقار تھے اور نغمات اختر یوسف نے لکھے تھے ۔ یہ بھی ایک کامیاب فلم تھی ۔ اس کامیابی میں ندیم اور شبانہ کی فلمی جوڑی کی مقبولیت کا بھی نمایاں ہاتھ تھا۔ 
انیس دوسانی نے اس کے بعد فلم ’’چاند‘‘ اور ’’چاندنی‘‘ بنائی ۔ احتشام اس کے ہدایت کار تھے۔ ندیم اور شبانہ مرکزی کرداروں میں پیس کئے گئے تھے ۔ ریشماں ‘ مصطفےٰ اور مزاحیہ ادارکار ڈئیر اصغر تھی اس میں نمایاں اداکار تھے ۔ اس کے موسیقار کریم شہاب الدین تھے۔ نغمات سروربارہ بنکوی نے لکھے تھے ۔ اس فلم کی موسیقی بے حد پسند کی گئی ۔ مسعود رانا کے دو گانے سپرہٹ اور یاد گار ہو گئے۔ 
ڈھاکا میں انیس دوسانی نے آخری فلم ’’قلی ‘‘ بنائی تھی جا کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کے اداکاروں میں بھی ندیم اور شبانہ شامل تھے ۔ سجاتا ‘ جلیل افغانی اور عظیم بھی ا س کی کاسٹ میں تھے ۔ سرور بارہ بنکوی کے نغمے موسیقار علی حسین نے طرزوں میں ڈھالے تھے ۔ یہ ڈھاکا میں انیس دوسانی کی آخری فلم تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ 
مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات دگر گوں ہوگئے تھے اس لیے انیس دوسانی اور ان کے خاندان نے ایک بار پھر ہجرت کی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان چلے آئے ۔ اس بار انہیں کچھ بھی ساتھ لانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ سارے اثاثے ڈھاکا میں رہ گئے تھے ۔ صرف حوصلہ اور عزم ان کے ساتھ تھا۔ 
کراچی میں اس خاندان نے نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا۔ چندر یگر روڈ کے آخری کنارے پر ایک چائنیز ریستوران کا آغاز کیا گیا جو ڈھاکا کے مقابلے میں بہت چھوٹا تھا ۔ اس ریستوران میں ہم انیس دوسانی صاحب سے ملنے گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ خود اور ان کے والد بڑے دوسانی صاحب بذات خود دیکھ بھال اور گاہکوں کی سروس کے لیے موجود تھے ۔ اس قدر عروج کے بعد زوال سے ہمکنار ہونے کے باوجود نہ تو ان کے حوصلے میں کمی آئی تھی اور نہ ہی کسی قسم کا احساس کمتری پیدا ہوا تھا۔ 
کراچی میں انیس دوسانی نے ایک بار پھر فلم سازی کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی فلم ایک پنجابی فلم تھی جس کے ہدایت کار جعفر بخاری اور موسیقار جے اے چشتی تھے ۔ اس کا کام ’’مترئی ماں ‘‘ تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بنائی ہوئی پہلی فلم ہی کامیاب نہ ہوسکی ۔ مگر انیس دوسانی ہمت ہارنے والے نہ تھے۔ 
اس بار انہوں نے ہدایت کار و فلم ساز پرویز ملک کے اشتراک سے فلم سازی کا آغاز کیا۔ اس سے پہلے وہ پرویز ملک کی فلمیں ڈسٹری بیوشن کے لیے حاصل کر چکے تھے اور دونوں کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ان دونوں کی پہلی اردو فلم ’’انمول‘‘ تھی جس نے کامیابی کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس فلم کے اداکاروں میں شبنم اور شاہد نے مرکزی کردار ادا کیے تھے ۔ علاؤالدین ‘ منور سعید اور افضال احمد بھی اس کے نمایاں اداکاروں میں شامل تھے۔ نغمہ نگار مسرور انور اور موسیقار نثار بزمی تھے۔ یہ فلم ہر اعتبار سے ایک بہت معیاری اور کامیاب فلم تھی جس نے پاکستان میں پرویز ملک اور انیس دوسانی کے اشتراک کا آغاز کیا ۔ یہ ساتھ ان دونوں کو بہت راس آیا اور انہوں نے بعد میں بھی کئی کامیاب اور معیاری فلمیں بنائیں جن میں ’’دشمن پہنچان ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ 
انیس دوسانی اور پرویز ملک کی دوستی بہت گہری تھی ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے مزاج شناس تھے اور ان کے خیالات و افکار بھی بہت حد تک یکساں تھے۔ پاک پتن میں بابا فریدؒ کے عرس کے لیے انیس دوسانی کراچی سے بطور خاص لاہور آتے تھے ۔ وہ اور پرویز ملک باقاعدگی سے ہرسال اس عرس میں شرکت کرتے تھے۔ 
ایک بار معلوم ہوا کہ پرویز صاحب اورا نیس دوسانی نے ایک مرشد کے ہاتھوں پر بیعت کرلی ہے ۔ یہ ایک غیر ملکی اور ہالینڈ کے رہنے والے تھے ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اسی کے ہو کر رہ گئے ۔ دنیا کو چھوڑ کر دین کو اپنا لیا ۔ گمنام اور الگ تھلگ رہتے تھے۔ بہت کم لوگ ان کی بزرگی اور فضیلت کے بارے میں جانتے تھے ۔ وہ بہت سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور لوگوں کے سامنے اللہ والے بزرگ کی حیثیت سے آنے سے پرہیز کرتے تھے ۔ چند سال قبل ان کے مرشد کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ 
چند روز قبل رات کے وقت اسلام آباد سے پرویز ملک صاحب کا ٹیلی فون آیا ۔ انہوں نے علیک سلیک کے بعد پوچھا ’’آپ کو انیس دوسانی کی خبر تو مل گئی ہوگی؟‘‘ 
ہم نے پریشانی سے کہا ’’نہیں ۔ انہیں کیا ہوا؟‘‘
بولے ’’ان کا ہاٹ فیل کی وجہ سے سے انتقال ہوگیا ۔‘‘
کچھ دیر تک ہم دونوں خاموش رہے پھر مزید بات کیے بغیر ٹیلی فون بند کر دیا۔ پہلی رمضان ۱۷ نومبر ۲۰۰۱ء کو وہ تیسری بار ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ مگر اس بار آخری اور دائمی ہجرت تھی ۔ اس کے بعد انہیں کوئی اور ہجرت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ 
انیس دوسانی صاحب سے ہماری کافی ملاقاتیں رہیں۔ سب سے زیادہ ملاقاتیں سنتوش صاحب کے گھر پر ہوتی تھیں یا تو سنتوش صاحب ہمیں مدعو کر لیتے تھے یا پھر انیس دوسانی بتا دیتے تھے۔ ویسے بھی ہمیں علم تھ اکہ لاہور کے دوران قیام میں وہ شام کو سنتوش صاحب کے گھر پر ہی ملتے ہیں۔ وہ خوش مزاج اور باتونی آدمی تھے مگر یہ ایک سے بے تکلف نہیں ہوتے تھے ۔ جسم بھاری تھا اور آواز میں بھی بھاری پن تھا ۔ قد کے اعتبار سے یہ بھاری پن برا نہیں لگتا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ ان کے وزن میں ہم نے کبھی کوئی نمایاں کمی نہیں دیکھی۔ گوری رنگت تھی۔ آنکھیں بڑی بڑی اور چمک دار جن سے ذہانت ٹپکتی تھی۔ مسکراتے تو بہت اچھے لگتے تو ۔ ان کی عادت تھی کہ ایک ہاتھ سے دوسرا ہاتھ (ہتھیلی ) ملتے رہتے تھے ۔ خصوصاً جب کسی بات پر غور کر رہے ہوں۔ 
انیس صاحب سے ہماری ڈھاکامیں بھی ملاقاتیں رہیں۔ ایک بار وہ ہمیں اپنے خوب صورت اور شان دار گھر پر کبھی لے گئے تھے لیکن ان سے پہلی ملاقات بہت ڈرامائی قسم کی تھی ۔ ہوا یہ کہ جب ۶۲‘۱۹۶۱ء میں میڈم نوجہاں ‘ اعجاز ‘ نیلو اور رتن کمار نیف ڈیک کے اس وقت کے ایم ڈی خیر الکبیر صاحب کی بیگم کے اسکول کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے سلسلے میں شوپیش کرنے کے لیے ڈھاکا گئے تو اس ٹیم کے ہم انچارج تھے۔ رتن کمار ہمیں ہیڈماسٹرکہا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں انیس دوسانی صاحب سے ہوٹل میں ملاقات ہوئی مگر ہم ان سے زیادہ واقف نہ تھے ۔ فلم سازی کا بھی انہوں نے نیا نیا آغاز کیا تھا۔ سچ تویہ ہے کہ ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے ۔ انہوں نے یہ شوسنیما ہال میں ٹکٹ خرید کر دیکھے تھے ۔ ہوٹل شاد باغ میں جب میڈم نور جہاں نے عملے کے نچلے ارکان کے لیے ایک شام گانا سنانے کا وعدہ کیا تھا اور ہوٹل کے انتظامیہ نے اپنی طرف سے بہت سے معززین اور ان کی بیگمات کو مدعو کر لیا تھا ان میں انیس دوسانی صاحب شامل نہ تھے ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں میڈم نور جہاں ان امیر لوگوں کو دیکھ کربہت برہم ہوگئی تھیں اور انہوں نے یہ کہہ کر ان سب کو باہر نکالنے کے لیے کہ تھا کہ یہ پروگرام میں نے نچلے ملازمین اور ان کے خاندانوں کے لیے کیا ہے نہ کہ دولت مندوں کے لیے ۔ میڈم کا حکم بھلا کون ٹال سکتا تھا ۔ مجبوراً انتظامیہ نے تمام معززین اور قیمتی ساڑیوں اور زیورات سے لدی ہوئی بیگمات کو باہر جانے پر رضا مند کر لیا۔ خدا جانے اس کے لیے بعد میں انہیں کیا خمیازہ بھگتنا پڑا ہوگا۔ (جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر434 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں