شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 14

شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 14
شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 14

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہودیوں میں ایسا ہی تھا ..... جب کوئی بااثر صاحب حیثیت یہودی کوئی جرم کرتا تو وہ اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے صاف بچ جاتا..... اور جب کوئی معمولی آدمی وہی جرم کرتا تو وہ گرفت میں آجاتا اور سزاپاتا ..... 
پاکستان میں توجن علاقوں میں شکار تھا اور جن سے قانون شکنی کا جرم ہو تاتھا ..... ان علاقوں میں اور ان لوگوں پر پولیس دست اندازی کر ہی سکتی ہوگی ..... یا ممکن ہے پولیس کے بعض اعلیٰ افسران خود بھی اس قانون شکنی میں ملوث ہوں ..... ممکن ہے بعض سرکاری افسران کے گھروں پر ایک ایک ہرن کا نذرانہ پہنچتا ہو ..... !
تیسری دنیا کے ملکوں کا یہی حال ہے ..... !
نیچے سے اوپر تک سب کی ذہنیت ایک ہی ہے ..... !

شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 13 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہندوستان میں شکار کے قابل جانوروں کے حفاظت اور قانون کے نفاد کا مناسب انتظام ہے ..... مسلمان کی تو اب ہندوستان میں حیثیت ہی کوئی نہیں ..... ہندو بھی شکار کرنے والے کم ..... اس لیے کہ دنیا کی ہر فضول شئے ان کی پرستش کی مستحق ہے ..... چند لوگ ہی شکار کرتے ہوں گے اور وہ یقیناً قانون کااحترام کرتے ہیں ..... ان کا پروجیکٹ ٹائیگر ..... جس میں WWF نے بھی حصہ لیا ..... نہایت کامیاب رہا ..... اور میں اس کی کئی فلمیں امریکہ میں ٹی وی پر دیکھتا رہا ہوں ..... ہندوستان نے شیر کی حفاظت کی اور ان کو نابود ہونے سے بچالیا ..... اور اب ان کی نسل بڑھ رہی ہے ..... تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ..... 
شمال میں نینی تال ..... پیلی بھیت اور اسی کے آس پاس کے وہ علاقے جہاں ایک انگریز شکاری جم کاربٹ رہتا تھا ..... حکومت ہند نے SANCTUAR قرار دے کر ..... جم کاربٹ نینشل پارک کے نام سے قائم کیا ..... اس میں شکار ممنوع ہے ..... اس علاقے میں شیروں کی خاصی تعداد ہے اور اب یہ تعداد بہ بتدریج بڑھ رہی ہے ..... 
جم کاربٹ بہت بڑا شکاری تھا ..... ’’بہت ‘‘ اس لیے کہ انگریز تھا ..... اگر یہی جم کاربٹ بنسی لال ..... یا کرشن مراری ..... یا شاکر حسین ہوتا تو نہ نیشنل پارک بنتا نہ محفوظ جنگل ..... قمر نقوی کے نام سے کون سا جنگل بن گیا ..... اگرچہ قمر نقوی نے جم کاربٹ سے کم شکار نہیں کیا..... ممکن ہے زیادہ ہی کیا ہو .....میں نے پچاس سال شکار کیا ہے ..... ہندوستان پاکستان برما ، نیپال ، ایران ، یوگنڈا، کانگوا ، امریکہ ، جم کاربٹ ، نے صرف ہندوستان یا مختصر عرصہ کینیا ..... لیکن ’’ انگریز اور وہ بھی سفید فام ‘‘ ہونا ایک سعادت ہے ..... 
میں نے اپنی پچاس سالہ شکاری زندگی میں ہاتھی اور گینڈے کے علاوہ اور تقریباً ہر قابل شکار جانور کا شکار کیا ..... اور قانون کے احترام کے ساتھ ..... الحمداللہ ..... 
ابھی میں نے ترک شکار نہیں کیا ..... میرا یہ مشغلہ اب بھی جاری ہے ..... اور انشاء اللہ ابھی ایک عرصہ جاری رہنا ہے ..... 
دشواری صرف یہ ہوئی کہ میرا کوئی عزیز دوست ‘ یا رشتے دار ..... نہ تو نیشنل اسمبلی کا ممبر ہوا ..... نہ صوبائی اسمبلی کا ..... میر اکوئی کزن ‘ بھائی ‘ بھتیجا وزیر یا سیکریٹری بھی نہیں ہوا ..... ایسی صورت حال میں میرے نام اور کارناموں کی قدر ..... یا شناخت کیسے ممکن تھی..... لیکن اچھا ہی ہے ..... نام ہونے سے کیا مل جاتا ہے ..... نام کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ نے مجھے نواز دیا ہے ..... !
دراصل شہرت اور نام آوری بھی عارضی چیزیں ہیں ..... اصل شئے تو روحانی سکون اور اطمینان قلب ہے اگر اطمینان قلب حاصل ہوجائے تو باقی سب کچھ ہیچ ہے ..... اور .....اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اطمینان قلب کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ حاصل ہے ..... 
مئی 94ء میں آتشزدگی نے مجھے سخت نا قابل تلافی تقصان پہنچایا ..... میرا سارا اثاثہ جل جانا کوئی معنی نہیں رکھتا ..... سب سامان دوبارہ مہیا ہوگیا بحمداللہ ..... لیکن میری ساری ٹرافیاں ..... سینگ ..... کھالیں ‘ شیر چیتے اور ریچھ کے مجسمے ..... اور تصاویر کے پندرہ بیش قیمت البم ..... آگ نے ان سب کو اس طرح جلا کر خاک کیا کہ کچھ بھی بچایا نہ جا سکا ..... یہی وجہ ہے کہ اس شکاری ..... شاہ کار میں اس شیر کی تصویر نہیں جسکا قصہ میں نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ..... اور وہ ساری پرانی تصویریں کہاں ملیں گی جو میں نے چالیس پچاس سال میں جمع کی تھیں ..... اللہ کی مرضی ..... !
میں جہاں جہاں شکار کے لیے گیا ..... اس کے بارے میں یاد داشتیں جمع کرتا رہا تاکہ ہر موقعہ ان کے واقعات لکھ سکوں آتشزدگی میں وہ ساری یادداشتیں جمع کرتا رہا تاکہ ہر موقعہ ان کے واقعات لکھ سکوں۔ آتشزدگی میں وہ ساری یادداشتوں کی کاپیاں بھی خاک ہوگئیں..... مجھے اکثر مقامات کے نام جن لوگوں نے شکار کا انتظام کیا ان کے نام ..... تاریخیں وغیرہ اب صحیح یاد بھی نہیں ..... بیس سال پہلے پچیس سال پہلے جن دیہاتوں اور دیہاتیوں سے سابقہ رہا اب ان کے نام کیسے یاد آئیں ..... اتفاق سے کوئی ذہن میں محفوظ رہ گیا تو خیر ..... !
میرے دکن کے اخبار ..... پیراں حسینی ‘ عظمت خاں اور عبدالباری تھے ..... پیراں حسینی کا تو انتقال ہو گیا ..... عظمت خاں کینیڈا میں مقیم ہیں ..... اور میں ان کی رینچ (RANCH) پر ہرن (WHITE TAIL) کے شکار کے لیے دوبار گیاہوں ..... عبدالباری کا پتہ نہیں ..... 
لاہور میں کئی حضرات میرے ساتھ شکار میں گئے ..... بعض ایسے تھے جنھیں میں بخوشی لے گیا ..... بعض ایسے تھے جو بادل نخواستہ لے جائے گئے ..... اور بعض ایسے بھی جن کو ساتھ لے جاکر خود اپنے سے نفرت ہونے لگی ..... ! میں شکار میں کسی کو ساتھ لے جانے سے پہلے بھی پرہیز کرتا تھا ..... خصوصاً شیر کے شکار پر ..... میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں ..... خطرناک جانور کے شکار میں مجھے تنہا جانازیادہ پسند ہے بہ نسبت کسی کو ساتھ لے جانے کے ..... اس کی وجوہات بھی بالتفصیل لکھ چکا ہوں ..... 
لیکن لاہور میں جب وہ ایک بندوقچیوں کے اصرار سے مجبور ہو کرمیں ان کو ہڑیال کے شکار پر ساتھ لے گیا تو مجھے ایک بار پھر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی ..... اور میں نے قطعاً توبہ کر لی ..... عہد کیا کہ اپنے بچوں کے سوا کسی کو ساتھ لے جانا گناہ کبیرہ اور میں اس گناہ کا مرتکب نہیں ہونے کا ..... 
امریکہ میں آنے کے بعد جو شکار کا سلسلہ شروع ہو اتو میرے بیٹے نے ہی میرے ساتھ جانا شروع کیا ..... پھر کئی دفعہ عرشی کے احباب ..... طارق محمود ..... رشید وغیرہ ..... لیکن یہ سب بچے ہی تھے ..... میرے بیٹے عرشی کے ہم عمر تھے ..... اور مجھے ان کے ساتھ جانے کی خواہش کی ..... لیکن میں ہمیشہ ٹال گیا ..... 
البتہ ..... ایک عراقی عرب ..... ابو الاسلام محمد ..... جن سے مسجد میں ملاقات ہوئی ..... کئی بار فاختہ یا کوئل کے شکار پر ساتھ ہوئے ..... اور نہایت مہذب و معقول ثابت ہوئے لیکن ان بیچارے کی ٹانگوں میں کچھ نقص ہے جس کی وجہ سے ان کو چلنے میں دشواری ہوتی ہے ..... اور میرا ساتھ نہیں دے سکتے نتیجتاً مجھے بھی ان کی مروت میں ٹھہرنا پڑتا تھا اور بڑا وقت ضائع ہوتا تھا ..... 
عرب ..... اور شکاری ..... ؟!
ہے ناحیرت انگیز بات ..... !
شکار ہمت کا کام ہے ..... محنت و مشقت چاہتا ہے ..... وقت چاہتا ہے ..... ! 
ابو ظہبی دبئی اور ملحقہ ’’شیخوں ‘‘ کے دوسا شکار میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ان کا شکار بھی مختلف نوعیت کا ہے ..... 
امارات او سعودی و عمانی شیوخ ..... باز پالتے ہیں (شکرا) ان بازوں کی تربیت جرمنی میں ہوتی ہے ..... میں نے کئی سال قبل ٹی وی پر ایک پروگرام اس موضوع سے متعلق دیکھا تھا جس میں جرمنی اور انگلینڈ کے ان اداروں کے طریق کا ر کی نمائش کی گئی تھی جن میں وہ ’’باز‘‘ کو کمسنی سے تربیت دیتے ہیں اور جب وہ شکار کرنا سیکھ جاتے ہیں تو ان میں سے اکثر باز خطیر رقموں میں فروخت کیے جاتے ہیں..... ابو ظہبی میں ایک دفعہ جمعہ خلقان نے مجھے بتایا تھا کہ اچھے سکھائے ہوئے تیز رفتار باز کی قیمت کبھی کبھی ایک لاکھ درہم ہو سکتی ہے..... شیخ زائد بن سلطان حکمران ابو ظہبی کے پاس بڑے قیمتی باز ہوا کرتے تھے ..... 
مجھے بتایا گیا کہ شیخ زائد اور ان کے رفقا ہر سال ’’ تلور‘‘ کے شکار کے لیے پاکستان جاتے ہیں ..... اور سندھ کے کسی علاقے میں اپنے قیمتی بازوں کے ذریعے تلور کا شکار کرتے ہیں ..... 
ویسے ابو ظہبی ٹی وی پر اکثر اس شکاری کی فلمیں کئی کئی گھنٹے متواتر دکھا کر لوگوں کو بور کیا جاتا تھا ..... فلمیں بیشررات کے وقت دیر میں دکھائی جاتی ہیں .....اور اچھی خاصی دلچسپ ہوتی ہیں بشرطیکہ شکار سے دلچسپی بھی ہو ..... اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابو ظہبی دبئی اور شارجہ کی ’’شیخوں ‘‘ کی اپنی بری بحری اور ہوائی افواج بھی ہیں ..... دشواری یہ ہے کہ قوت انسانی کی سخت قلت ہے ..... عرب و قوم کا فرد ..... سپاہی تو ہر گز نہیں ہو سکتا اس کی ’’غیرت قومی ‘‘ یہ گواراہی نہیں کر سکتی کہ ’’ سپاہی ‘‘ بن جائے ..... البتہ کپٹن ‘ میجر کرنل اور جنرل وغیرہ بننے میں اس کو عار نہیں۔ گوموروثی جہالت اور فطری تکبر اس میں ظاہر رہتا ہے ۔ سپاہیوں کی حاجب رفع کرنے کے لیے مختلف ممالک کے لوگ بھرتی کیے گئے ہیں ..... صومالیہ ‘ اتھوپیا ‘ سوڈان ‘ الجیریا ‘ نائجیریا وغیرہ ممالک کے لوگ ہیں ..... ہوا باز پاکستانی ‘ ٹینک اور بری توپیں چلانے والے سوڈانی ہیں ..... اور ..... آفسر..... عرب ..... اس لیے عرب صرف افسری ہی کر سکتے ہیں ..... (جاری ہے )

شکاری۔۔۔ شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان... قسط نمبر 15 پڑھنےکیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

کتابیں -شکاری -