پاکستانی سیاست اور عورت
اپوزیشن پارٹیوں کا اسلام آباد میں بلاول بھٹو زرداری کی دعوتِ افطار پر اکٹھ ہوا۔ پریس کانفرنس میں تمام جماعتوں کے اہم رہنماﺅں نے گفتگو کی اور رمضان کے بعد مولانا فضل الرحمان کو اے پی سی منعقد کرنے کا کام سونپا گیا۔
یہ تو واقعے کا سیدھا سادہ بیان ہے، مگر جو کچھ زیبِ داستان ہے ، وہ الحفیظ، الامان! تمام سیاسی جماعتوں کے اتنے مرد نمائندوں کی موجودگی میں بھی،جس ایک سیاسی رہنما پر سب سے زیادہ طنز کے تیر برسائے گئے، وہ ایک عورت مریم نواز شریف ہیں۔
حکومتی حلقوں میں تو اس افطا ر پارٹی کے انعقاد پر آہ و بکا مسلسل سنائی دے رہی ہے اور بقول شخصے ’ایک افطاری، سب پر بھاری‘دکھائی دے رہی ہے اور لگتا ہے کہ اس کے اثرات اگلے جلسے ےا اپوزیشن کے اگلے لائحہ عمل اورپڑاﺅ تک جائیں گے، مگر سوشل میڈیا پرایک طوفانِ بدتمیزی بپا ہے، جس کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ یہ تو طے ہے کہ مریم نواز شریف نے جب سے سیاست میں قدم رکھا ہے، ان کی ہر نئی بات، جلسے اور اقدام پر اس سوشل میڈیائی ہجوم نے بدتہذیبی اور غلاضت انڈیلنے کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔واقفانِ حال جانتے ہیں کہ یہ کہانی نئی نہیں ہے۔ب
ے نظیر بھٹو کے ساتھ سیاسی مخالفین نے جوکچھ کیا تاریخ کا حصہ ہے، لیکن زمانہ اس پر بھی گواہ رہے گا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی قدروں اور اخلاقی تربیت کی تنزلی میں جس طرح تیزی آئی ہے،اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔دُعا تو یہی کی جانی چاہئے کہ آئندہ بھی ایسی مثال نہ ملے، مگراس پستی اور گراوٹ کی جو رفتار ہے، اسے دیکھ کر کچھ زیادہ امید رکھنا بھی مشکل ہے۔
یہ سوچ کر ڈر جاتی ہوں کہ اگرساٹھ اورستر کی دہائیوں میں آج کا ہجوم موجودہوتا تو کیا ہوتا کہ جب مادرِ ملت فاطمہ جناح پرمقتدر قوتوں نے غداری کا لیبل لگایا تھا۔ ایک ہی سانس میں قائداعظم کو زندہ باد کہنے والااورفاطمہ جناح کو فحش گالی بکنے والا ہجوم بھی اس دھرتی نے دیکھا ہے۔ کہنا نہیں بنتا،مگر کیا اس وقت کے پروپیگنڈہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ٹرانس کے زیر اثر فاطمہ جناح کو غدار مشہور نہیں کیا گیا اور کیا انہیں انتخابات میں شکست سے دوچار نہیں کیا گیا؟تو ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں کسی کو کسی بھی رخ پرکیوں نہیں ہانکا جاسکتا ۔یہ گروہ ہمیشہ سے وہی کچھ کرتا ہے، جو آج کی سیاسی عورت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
فاطمہ جناح، بے نظیر بھٹو اور اس وقت مریم نواز شریف۔یہ استعارے ہیں ایک با اختیار اور سیاسی فہم رکھنے والی عورت کے۔ فاطمہ جناح آج ہوتیں توانہیں بھی موروثی سیاست کا طعنہ دیا جا سکتا تھا، جیسے بے نظیر بھٹو کی جیل کی قید ، وطن بدری، سیاسی جدو جہد اور مریم نواز کی پیشیوں ، جیل اور ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیے کو ملک کے چپے چپے تک پہنچانے کی تگ و دو کو بھلا کر ایک جھٹکے میںکہہ دیا جاتا ہے کہ انہیں تو سیاست ورثے میں ملی ہے۔ یہ باتیں بلاول بھٹو زرداری ، حمزہ شہباز شریف اور دیگر مرد بھی سُن رہے ہیں، مگر لوگ بھول جاتے ہیں کہ بلاول کے نانا اور ان کی ماں کا خون ہوا ہے اور حمزہ نے کم عمری میںسیاست میں نہ ہونے کے باوجودایک ڈکٹیٹر کی اقتدار کی ہوس کی پاداش میں جیل کی ہوا کھائی ہے۔جب آپ سزا کے لئے ایک ہی خاندان کے لوگوں کو چنیں گے، تو سیاست میں مقبول بھی تو انہی نے ہونا ہے۔ سو یاد رکھیںیہ نوجوان رہنما وہ ہیں، جنہیں خود ”آپ“ نے اس وادی میں دھکیلا ۔
عورت کی تذلیل کا ایک نیامعیار کسی مرد کو عورت کہہ کر بھی متعین کیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے لیے عمران خان ، شیخ رشید اور سوشل میڈیاپر بپھرے ہوئے ہجوم کی طرف سے یہی نام اور طعنہ استعمال کیاجاتا ہے،یعنی کسی مرد کوعورت کہنے میں مرد کی تذلیل اس معاشرے نے طے کی ہے۔ ایک صنف کوبرتر اور باقی اصناف کو کم تر سمجھنے والا ہجوم، ہر گالی ماں اور بہن کے نام سے شروع اور ختم کرتا ہے۔یہ بد تہذیب ہجوم ، اس کے علاوہ کر بھی سکتاہے؟ میری نانی کہا کرتی تھیں، ’چپ کر، نی! مرد آزاد اے‘.... میں کہتی تھی، ’کیا ہے نانو جی، ہم بھی آزاد ہیں‘، مگر اس وقت اس مرد زدہ معاشرے کا چہرہ دیکھا ہی نہ تھا۔لیکن ہم وہ بدقسمت معاشرہ ہیں کہ جیسے جیسے وقت آگے جا رہا ہے، یہ چہرہ مزید بھیانک اور تاریک ہوتا جا رہا ہے۔
آج کا ہجوم فاطمہ جناح کو بھی کسی سیاسی اکٹھ پر بھائی، باپ اور شوہر کی غیر موجودگی کا طعنہ دے سکتا تھا۔ جی ہاں، مریم نواز شریف کے لئے اس طعنہ سے اس وقت سوشل میڈیا کی دیواریں بھری ہوئی ہیںاور محض اس طعنے پر بس نہیں، یہ ہجوم اپنے دِلوں کی غلاضت کئی اور طریقوں سے بھی انڈیل رہا ہے۔ کیا مردوں سے کبھی پوچھا جاتا ہے کہ جب وہ سیاسی اکٹھ میں شامل ہوتے ہیں یا اسمبلی میں جاتے ہیں تو ان کا باپ، بھائی اور بیوی ان کے ہمراہ کیوں نہیں ہوتے؟اور جب ان کے گھر کی عورتیں گھر سے پڑھائی، کام، شاپنگ وغیرہ کے لیے اکیلے نکلتی ہیں تو کیا لوگوں کو اختیار ہے کہ ان کی تصویر کو کوئی بھی رخ دے سکیں؟کیا کوئی ان کی مسکراہٹ، خاموشی یا بولنے کو کوئی بھی معنی پہنا سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیںہے تو پھر دوسروں کی عزت پرمت انگلی اٹھائیں !
یہ کیسا سماج ہے کہ عورت گھر سے نکلے تووہ لمحوں میں عورت سے ایک ”دستیاب عورت“ بنا دی جاتی ہے۔یہ ہجوم بس سٹاپ پراکیلی عورت کے لیے سیٹی بجاتا ہے، سڑک پر چلتی ہے تو گاڑی روکتا ہے، دفتر میں کام کرتی ہے تو ترقی کی رکاوٹ ہٹانے کے لئے ”پیشکش“ کرتا ہے، بازار میں جائے تو چلنے کے راستے تنگ کرتا ہے، اکیلی اور نہتی ہو تو اغوا کرتا ہے، زیادتی کرتا ہے اور قتل کر دیتا ہے۔ دس سالہ فرشتہ کے اغوا ، قتل اور زیادتی کی خبریں گونج رہی ہیں اور یہ معاشرہ، یہ ہجوم اپنے وجود پر شرمندہ بھی نہیں۔ پھر یہ ہجوم کیسے اختیار کے ایوانوں میں عورت کی بات سن سکتا ہے؟ یہ عورت کے پاس یہ اختیارکیسے برداشت کر سکتا ہے کہ وہ اہم فیصلہ سازی میں شامل ہو؟ یہ ہجوم آخر کیسے برداشت کر سکتاہے کہ کوئی عورت اٹھے اور جمہوریت کی نمائندہ بن جائے؟