کراچی میں مسلم لیگ(ن) کی افطار پارٹی، پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کا اکٹھ!

کراچی میں مسلم لیگ(ن) کی افطار پارٹی، پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کا اکٹھ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ڈائری ۔ کراچی ۔ مبشرمیر
متحدہ اپوزیشن نے تحریک انصاف اور ان کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کو مشکل وقت دینے کا نقارہ بجایا ہے۔ کراچی میں مسلم لیگ ن نے ایک افطار پارٹی میں حکومتی حلقوں کو للکارا۔ سابق وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال ماحول کو گرمانے کے لیے موجودتھے اور دیگر مسلم لیگی قائدین مفتاح اسماعیل، سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے بھی ان کا ساتھ دیا ، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نثار کھوڑو اور اے این پی کی طرف سے سینیٹر شاہد سید نے بھی شرکت کی۔ مفتاح اسماعیل جو مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری بجٹ پیش کرنے والے وزیر خزانہ تھے، ان کو سندھ تنظیم کا سیکریٹری جنرل بنایا گیا ہے۔ افطار پارٹی کا اہتمام بھی انہی کی کاوش تھی ۔ حیرت کی بات ہے کہ مسلم لیگ ن نے ایسی تقریب اپنے دور اقتدار میں نہیں کی تھی، چوہدری احسن اقبال کا رویہ جارحانہ تھا، لیکن اس وقت جب عوام پسے ہوئے ہیں، سڑکوں پر آنے کے لیے آمادہ بھی دکھائی نہیں دیتے، لیکن اپوزیشن ایک پریشر قائم کرنے میں بہرحال کامیاب ہوسکتی ہے۔
احتسابی عمل کو تکمیل تک پہنچانا دن بدن مشکل نظر آرہا ہے، اس کی واضح مثال صوبہ سندھ میں اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے خلاف کاروائی کا عمل ہے۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس 9 جنوری 2019ءسے مسلسل جاری ہے۔ ان پانچ مہینوں میں 69 دن اجلاس منعقد ہوا، یہ سندھ اسمبلی کی تاریخ کا طویل ترین سیشن ہے۔ آئین کی رو سے صوبائی اسمبلی کو سال کے 12 مہینوں میں کم از کم 100 دن اسمبلی بزنس کرنا ہوتا ہے۔ ایک اجلاس 12 سے 15 دنوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ لیکن اس سے زیادہ کام کرنے کی روایت نہیں تھی، اب احتسابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے گرفتار اسپیکر کی خاطر اجلاس کو جاری رکھا گیا ہے۔
گذشتہ برس 13 اگست 2018ءکو نئے پارلیمانی سال کا آغاز ہوا، سندھ اسمبلی نے 31 دسمبر 2018ء تک صرف 30 دن کام کیا۔ ایک اجلاس 4 ستمبر کو بلایا اور اسی دن ختم ہوگیا ۔ پہلا اجلاس 4 دن پھر دوسرا ایک دن، تیسرا 8 دن اور چوتھا 18 دن جاری رہا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اسپیکر آغا سراج درانی کی خاطر پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی کو یرغمال بنارکھا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو احتسابی عمل اپنی رفتار سے جاری رکھنا نیب کے بس میں نہیں۔
لاڑکانہ سے ایچ آئی وی (HIV) کے پانچ سو سے زائد کیس سامنے آنے کے باوجود سندھ حکومت نے ہنگامی حالات کا اعلان نہیں کیا، وزیر صحت عذرا فضل پیچوہو کی کارکردگی کو بھی ہدف تنقید نہیں بنایا گیا ۔ حیرت کی بات ہے کہ ایچ آئی وی کے اثرات زیادہ تر بچوں میں پائے جاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتال ایک بھیانک تصویر پیش کررہے ہیں، جہاں عوام کے علاج معالجہ کی بجائے ان کی موت کے سامان تیار پڑے ہیں۔ اس سے پہلے تھر میں بھی بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری تھا اور ہے ، وہاں بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات موثر ثابت نہیں ہوئے۔ لاڑکانہ اور پھر خاص طور پر رتو ڈیرو میں اتنی بری حالت حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے۔
سندھ اسمبلی نے پولیس آرڈر 2002ءترمیم کے ساتھ منظور کرلیا ہے۔ سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کو برا بھلا کہنے کے بعد بالآخر ان کے دور کے بنائے ہوئے پولیس آرڈر کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس میں آئی جی کی تبدیلی اور تعیناتی کے لیے وزیراعلیٰ کی اتھارٹی پیپلز پارٹی کے لیے باعث اطمینان دکھائی دیتی ہے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پبلک سیفٹی کمیشن اور پولیس کمپلینٹ کمیشن دو ایسے ادارے ہونگے جو پولیس سسٹم کو بہتر بنانے میں معاون ہونگے۔ ایک لمحے کو مجھے یوں لگا کہ پیپلز پارٹی نے پولیس آرڈر 2002ء کو ایسے ہی پاس کروایا ہے، جیسے اپنی وفاقی حکومت کے اختتام کے آخری دنوں میں پاک ایران گیس معاہدے پر دستخط کردیے تھے تاکہ آنے والی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن جائے۔ کیا یہ پولیس آرڈر نافذ کرنے میں پیپلز پارٹی واقعی مخلص ہے، اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو اس پر سندھ حکومت کی تعریف و توصیف ہونی چاہیے۔ لیکن پولیس کی کارکردگی پر جو سوالیہ نشان اغواءبرائے تاوان کی تازہ وارداتوں نے لگایا ہے، بہت خطرناک اور بھیانک ہے۔
معروف تاجر خاندان کی بیٹی بسمہ سلیم کا ڈی ایچ اے سے اغواءاور پھر تاوان کی رقم ادا کرکے واپس آنا، کئی خاندانوں کی نیندیں اڑا گیا ہے، پوش علاقوں کے لوگ بھی ایک غیر محفوظ صورتحال سے خود کو دوچار تصور کرنے لگے ہیں۔ ویڈیو فوٹیج نے اور بھی ہراساں کردیا ہے۔ پولیس ایس ایس پی سا¶تھ پیر محمد شاہ پر یس کانفرنس میں اپنے محکمہ کا دفاع کرنے میں کامیاب نظر نہیں آئے، ان کے چہرے پر پریشانی نمایاں تھی، شہر کراچی اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز ہے، لیکن موجودہ معاشی بحران سے کاروبار زندگی پر منفی اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج مسلسل دبا¶ میں نظر آرہی ہے ، روزانہ سینکڑوں پوائنٹس انڈکس سے کم ہورہے ہیں۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ گذشتہ دنوں کراچی میں تھے، ان کے مطابق 20 ارب کا پیکج دیا جائے گا ، سوال یہ ہے کہ حکومت ہر ادارے سے سبسڈی کا خاتمہ کا اعلان کررہی ہے، تو پھر اس سٹے بازی کے کاروبار کو سہارا دینے کے لیے 20 ارب روپے کیوں ضائع کرنا چاہتی ہے، ماضی میں بھی ایسی امداد عوام کے اربوں روپوں کی طرح ضائع ہوچکی ہے۔
ایف بی آر کے نئے سربراہ سید شبر زیدی، اخبارات کی تنظیم اے پی این ایس کے افطار ڈنر میں تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ وہ کاروباری طبقے کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کاروباری طبقے پر ٹیکس کا خوف طاری ہونا ایک فسانہ ہے، ان کو اعتماد کے ساتھ کام کرنا چاہیے ، میں نے چھاپے مارنے سے افسران کو منع کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف جو مہم چلائی گئی، اس میں یہ بات سراسر غلط تھی کہ میں ٹیکس نہیں دیتا۔ میں فائلر ہوں اور دو کروڑ روپے سالانہ ٹیکس ادا کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایمنسٹی اسکیم ضرور کامیاب ہوگی۔ تحریک استقلال کے چیئرمین رحمت خان وردگ کا کہنا ہے کہ ایمینسٹی اسکیم جو ڈاکٹر محبوب الحق نے صدر جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں متعارف کروائی تھی، اگر اس نوعیت کی ایمنسٹی ہو تو زیادہ کامیاب ہوگی۔
کراچی کے ساحلوں سے تیل اور گیس کے ذخائر نکلنے کی جو امید وزیراعظم عمران خان نے دی تھی، ڈرلنگ کمپنی کے اعلانِ ناکامی کے بعد پوری قوم سوگوار ہوگئی ہے۔ ایک ماہر اقتصادیات کے مطابق ایسی کوششیں کامیابی سے تب ہمکنار ہوتی ہیں جب بین الاقوامی حالات آپ کے حق میں ہوں۔ باخبر ذرائع کے مطابق سمندر سے تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کرنے والی غیر ملکی ماہرین پر مشتمل کمپنی پر پاکستان کے کسی ادارے کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی انتظام نہیں تھا، ہر طرح سے وہ بااختیار تھے جو انہوں نے بہتر سمجھا وہی فیصلہ کردیا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -