ہاتھ کھڑے کر کے سینیٹروں کا انتخاب؟
وفاقی حکومت نے آئینی ترمیم کا ایک مسودہ تیار کیا ہے، جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ ایوانِ بالا (سینیٹ) کے ارکان کا انتخاب خفیہ رائے شماری کی بجائے ہاتھ کھڑے کر کے کیا جائے، حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ مجوزہ طریق ِ کار کے ذریعے ووٹوں کی خرید و فروخت (ہارس ٹریڈنگ) روکی جا سکے گی اور انتخابی عمل ”مزید شفاف“ ہو جائے گا اِس مقصد کے لئے آئین کی دفعات 59 اور 226 میں ترمیم کی جائے گی۔ اگر یہ آئینی ترامیم منظور ہو گئیں تو سینیٹ کے اگلے انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے نہیں ہوں گے۔یہ تجویز ان انتخابی اصلاحات کا حصہ ہے جو حکومت انتخاب سے متعلق مختلف سطحوں پر کرنا چاہتی ہے، اس کا اعلان دو وفاقی وزراء، اعظم سواتی اور شفقت محمود نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
سینیٹ کے نئے تجویز کردہ طریق ِ کار کے تحت انتخاب اسی صورت میں ہوں گے جب آئینی ترامیم پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہو جائیں، کسی وجہ سے اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر پرانے طریقے کے تحت ہی انتخاب ہوں گے اب یہ حکومت کی صلاحیتوں کا امتحان ہے کہ وہ ترمیم پارلیمینٹ سے منظور کرا پاتی ہے یا نہیں؟سینیٹ کا انتخاب بالواسطہ طور پر ہوتا ہے اور ہر صوبے کی اسمبلی اس کے لئے الیکٹورل کالج ہے،صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بطور ووٹر سینیٹروں کا انتخاب کرتے ہیں،چونکہ ہر پارٹی کے ارکان کی تعداد معلوم ہوتی ہے، اِس لئے پہلے سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ کون سی پارٹی کتنے ارکان منتخب کرانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔البتہ اِس میں اپ سیٹ بھی ہوتے رہتے ہیں اور پارٹیوں کے ارکان خفیہ رائے شماری میں اپنی ہی پارٹی سے ہاتھ کر جاتے ہیں، پھر یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا امیدوار بھی منتخب ہو جاتا ہے،جس کی پارٹی اُسے منتخب کرانے کے لئے مطلوبہ ووٹوں کی حامل نہیں ہوتی،ایسے ارکان منتخب ہونے کے لئے پارٹی پر اعتماد نہیں کرتے،بلکہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہیں، زر بھی قاضی الحاجات کا کام کرتا ہے، ووٹر بھی خوشحال اور امیدوار بھی فرحاں و شاداں، خفیہ رائے شماری کا یہ طریقہ کار اُس وقت سے رائج ہے جب سے سینیٹ کا ادارہ وجود میں آیا ہے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ہارس ٹریڈنگ اسی وقت سے ہو رہی ہے، لیکن کئی برس سے چاندی کی چمک اپنا کام دکھاتی رہی ہے، اِس وقت بھی سینیٹ کے ایوان میں بہت سے ایسے ارکان رونق افروز ہیں جو اسی کی کرشمہ سازیوں کی بدولت وہاں پہنچے ہیں۔
سینیٹ کا انتخاب اگلے برس مارچ میں ہو گا،اگر آئینی ترمیم منظور ہو گئی تو ووٹر ہاتھ کھڑے کر کے امیدوار منتخب کریں گے۔یہ سب کچھ اگر واقعتا ہارس ٹریڈنگ روکنے ہی کے لئے ہو رہا ہے تو لائق ِ تحسین ہے،لیکن پھر اِس نیک کام کو محدود رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں نہ ہارس ٹریڈنگ کے سارے ہی روزن ایک ہی ہلّے میں بند کر دیئے جائیں، کیونکہ ہارس ٹریڈنگ اگر ہوتی ہے تو صرف سینیٹروں کے انتخاب کے وقت ہی نہیں ہوتی،بہت سے دوسرے مواقع پر بھی ایسا ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔اگر ماضی میں نہیں بھی ہوا تو مستقبل میں ہو سکتا ہے،اِس لئے دانش کا تقاضا ہے کہ اس کی پیش بندی ابھی سے کر لی جائے۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی خفیہ رائے شماری سے نہیں ہونا چاہئے تاکہ جس پارٹی کی ایوان میں حقیقی اکثریت ہو وہی اپنا چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین منتخب کرا سکے، کیا آپ کو اِس امر پر حیرت نہیں کہ موجودہ سینیٹ میں مسلم لیگ(ن) سب سے بڑی پارٹی ہے،لیکن دونوں عہدیداروں میں اِس کا کوئی رکن نہیں۔صادق سنجرانی کا انتخاب تو اُن انتخابی معجز نمایوں کا جیتا جاگتا شاہکار تھا جو ہمارے انتخابات میں وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہیں،ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی، جو کامیاب نہ ہو سکی،حالانکہ نمبر گیم کے حساب سے اس کی ناکامی کا کوئی سوال نہ تھا،جن پارٹیوں نے مل کر تحریک عدم اعتماد پیش کی اُنہیں صرف چند ووٹ ہی دوسری جماعتوں سے درکار تھے۔ بظاہر جن کا حصول مشکل نہ تھا،لیکن پردے کے پیچھے جو پر اسرار سرگرمیاں ہو رہی تھیں انہوں نے کام دکھایا اور چیئرمین سینیٹ فاتح ٹھہرے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے بھی ششدر رہ گئے،انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اُن ارکان کو تلاش کریں گے، جنہوں نے پارٹی پالیسی کی بجائے ”ضمیر کی آواز“ پر ووٹ دیا،لیکن آج تک ان نگینوں کا علم نہیں ہو سکا اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ ہماری سیاسی خاکستر میں کیسی کیسی چنگاریاں پوشیدہ ہیں،اِس لئے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی شو آف ہینڈ کے ذریعے کیا جائے اور اگر کبھی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ضرورت پیش آ جائے تو یہاں بھی خفیہ رائے شماری کا ناقابل ِ بھروسہ عمل نہ دہرایا جائے، کیونکہ اگر سینیٹروں کا انتخاب ہاتھ کھڑے کر کے ہونا ہے تو چیئرمین کے انتخاب کے وقت بھی یہ طریقہئ کار کیوں نہ اپنایا جائے،جو تجویز آئی اچھی ہے لیکن اس کے لئے آئینی ترمیم کا مشکل راستہ اختیار کیا جا رہا ہے تو کیا یہ بات منطق کے عین مطابق نہیں ہے کہ چیئرمین کا انتخاب بھی اسی طریقے سے ہو اور جو مسودہ تیار کیا جا رہا ہے اس میں ایک دو فقرے بڑھا کر یہ واضح کر دیا جائے کہ چیئرمین کے انتخاب اور بوقت ِ ضرورت عدم اعتماد کی صورت میں بھی ہاتھ کھڑے ہوں گے، اس طرح ایک اچھے کام کا دائرہ بطریق ِ احسن مکمل ہو گا۔
لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ہو سکتا ہے جب مجوزہ ترمیم پارلیمینٹ سے منظور ہو جائے،جس کے لئے دو تہائی اکثریت درکار ہے، حکومت کے پاس تو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی نہیں اور کئی چھوٹی جماعتوں کی حمایت نے اسے تھام رکھا ہے،جہاں تک سینیٹ کا تعلق ہے وہاں حکومت اور اتحادی جماعتوں کی پوزیشن اور بھی پتلی ہے اِس لئے آئینی ترمیم اُسی وقت منظور ہو سکتی ہے، جب اپوزیشن جماعتیں حکومت کی حمایت پر تیار ہوں۔ہمیں معلوم نہیں یہ تجویز پیش کرنے سے پہلے حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لیا ہے یا نہیں، اور اگر نہیں لیا تو پھر ترمیم کی منظوری کے لئے کیا طریقہ اپنایا جائے گا، امریکہ میں ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں دونوں کے انتخاب براہِ راست ہوتے ہیں، سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے ارکان کو ووٹر ہی منتخب کرتے ہیں۔دُنیا کے جن دوسرے ممالک میں دو ایوانی مقننہ ہے اُن کے انتخابی نظام کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے اگر اصلاحات تیارکرنے والوں کے پاس وقت ہو تو بہت کم مدت میں براہِ راست انتخاب کا نظام بھی وضع ہو سکتا ہے۔