یوم القدس عالم اسلام میں جوش و ولولے کی تجدید کا دن
تحریر: شبیر احمد شگری
ماہ مبارک رمضان کے جمعة الوداع کو یوم القدس ایک جوش اور ولولے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس دن بحرحال مسلمان قوم کی غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ ایک ولولہ اور جوش پیدا ہوجاتا ہے ۔ کیوں کہ غاصب صیہونی ریاست نے نہ صرف مسلمانوں کے قبلہ اول پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اور نہ صرف یہاں موجود ہمارے مسلمان بہن بھائیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں بلکہ نہتے اور غریب عوام جو کہ بھاری اسلحے کے مقابلے میں پتھروں اور غلیلوں سے اسرائیلی فوجیوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں، ان کو پوری دنیا میں دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔غاصب صیہونی فوجی جو مرضی کریں جس کو مرضی کہیں بھی گولیوں سے بھون ڈالیں، کہیں بھی کسی مسلمان بہن کے ساتھ زیادتی کریں کسی بھی بچے کو اٹھا کر قید میں ڈال دیں ان کی نظر میں یہ سب صحیح ہے۔ حالانکہ یہ سب بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑادینے کے مترادف ہے۔ لیکن اقوام متحدہ اور پوری دنیا کے انسانی حقوق کے دعویدار مسئلہ فلسطین اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر ایسے آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ویسے تو دنیا میں کہیں بھی کتے بلیوں اور جانوروں کو بھی تکلیف دینا بھی کم از کم اخلاقی جرم تو سمجھا جاتا ہے ۔ اور جانوروں کی جان بچانے پر ایوارڈز دئیے جاتے ہیں ۔لیکن ہم بات کررہے ہیں فلسطین کی جہاں کا خون مسلمانوں کا اور بہت سستا خون ہے۔اور پٹرول کی قیمت کو اس خون پر فوقیت دی جاتی ہے۔کیونکہ یہ ہم مسلمانوں کی ہی کوتاہیاں ہیں۔ کہ نام نہاد سپر پاورز کے کہنے میں آکرہم آپس میں ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ دشمن نے کہیں ہمین فرقوں کہیں ذات پات اور قوم میں بانٹا ہوا ہے اور ہم بخوشی بنٹتے ہی چلے جارہے ہیں۔دشمن کی شاطرانہ چالوں کو بہترین انداز میں سمجھنے والی موجودہ دور کی عظیم شخصیت حضرت امام خمینیؒ کی ذات تھی جنھوں نے نہ صرف انقلاب اسلامی برپا کیا بلکہ دشمن کے چہروں پر پڑے نقابوں کو نوچ کر ان کا مکروہ چہرہ تمام دنیا کے سامنے آشکار کردیا۔امام خمینیؒ نے فرمایا تھا کہ اگر مسلمان ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل کی طرف پھینک دیں تو فلسطین ٓزاد ہوجائے گا۔ ایک اور جگہ انھوں نے فرمایا اسرائیل کا وجود ایک مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔دشمن کی چالوں کو سمجھتے ہوئے اس مرد مومن نے عالم اسلام کو ایک ایسا حکم دے دیاکہ ساری سپر طاقتیں ہر سال اس کو مٹانے کی بھرپور کوششیں کرتی ہیں لیکن اس میں ناکام رہتی ہیں ۔
جب اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملے کیے تو حضرت امام خمینی نے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر اعلان فرمادیا۔ انھوں نے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے کی طرف متوجہ کیا ، جس نے اس وقت بھی فلسطینی بہن بھائیوں پر حملات کو شدید کر دیا تھا ، اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لئے ، مسلسل ان کے گھروں پر بمباری کر رہا تھا۔امام خمینی ؒ نے فرمایامیں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے ، اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہو سکتا ہے ، اس کو "یوم القدس" کے عنوان سے منتخب کرتے ہوئے ، کسی طرح بھی بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کے ساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کا اعلان کریں۔ اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو اہل کفر پر کامیابی عطا فرمائے ۔
بلاشبہ یہ ایک عظیم مسلمان لیڈر کی ایک عظیم پکار تھی۔جس کی گونج اب تک سنائی دیتی ہے اور ان شااللہ قدس کی ٓزادی تک یہ گونج سنائی دیتی رہے گی۔امام خمینی ؒ کی اس آواز پر پوری دنیا کے مسلمانوں نے لبیک کہا اور اب تک ہر رمضان میں بالخصوص تمام مسلمانوں کے اندر ایک جذبہ نئے ولولے کے ساتھ امڈ ٓتا ہے اور اسی طرح جمعتہ الوداع کو یوم القدس منایا جاتا ہے۔اور انشا اللہ قدس کی ٓزادی تک منایا جاتا رہے گا۔80 اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں اس دن مظاہرے ہوتے ہیں، ان ممالک میں ملیشیا، بھارت، سنگاپور، انڈینیشیا، ترکی، امریکہ، کینڈا، ناروے ، آذربائیجان، سوڈان، برطانیا، بحرین، بوسنیا اور ہرزگوئینہ، تیونس، پاکستان، آسٹریلیا، جرمنی، رومانیہ، کویت، ھسپانیہ، جنوبی افریقا، سوئیڈن، وینزوئیلا، البانیہ، یمن اور یونان شامل ہیں۔مختلف مغربی خبررساں ایجنسیاں عام طور پر چپ سادھ لیتی ہیں یا پھر ہزاروں افراد یا دسیوں ہزار افراد جیسی عبارات استعمال کرتے ہوئے کوشش کرتی ہیں کہ مظاہرے میں شریک عوام کی تعداد کو کم کر کے بتائیں ۔"یوم القدس عالمی ہے اور یہ صرف قدس سے متعلق نہیں ہے۔ یہ مستضعفین کا مستکبرین کے ساتھ مقابلے کا دن ہے ، یہ ان اقوام کے مقابلے کا دن ہے جو امریکہ اور غیر امریکہ کے ظلم تلے دبے ہوئی تھیں، ایسا دن ہے جب مستضعفین کو چاہئے کہ مستکبرین کے خلاف پوری طرح تیار ہو جائیں اور ان کو ذلیل و خوارکریں۔
ارض فلسطین انبیاءکی سرزمین بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اوّل اس وقت غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے ....مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے ان اساسی اور بنیادی مسائل میں سے ایک ہے جس نے گزشتہ کئی عشروں سے امت مسلمہ کو بے چین کررکھا ہے ۔ ارض فلسطین جسے انبیاءکی سرزمین کہا جاتا ہے اور بیت المقدس جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اس وقت سے غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے جب سے ایک عالمی سازش کے تحت برطانیہ اوراسکے ہم نوا¶ں کی کوششوں سے دنیا بالخصوص یورپ کے مختلف علاقوں سے متعصب یہودیوں کو فلسطین کی زمین پر بسایا گیا ۔ صہیونیوں کے اس سرزمین پر آتے ہی وہاں کے مقامی فلسطینی باشندوں کو کنارے لگادیا گیا اور آہستہ آہستہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم اس سطح پر پہنچ گئے کہ فلسطینیوں کو ہاتھ اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننا پڑا یا مجبور ہوکر انہیں ترک وطن کرنا پڑا ۔فلسطین کا مسئلہ شروع میں تو ایک علاقائی مسئلہ رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی مخلص اور مجاہد قیادت کو یہ ادراک ہونے لگا کہ دشمن صرف زمین اور علاقائی مسئلہ سمجھ کر فلسطین پر قابض نہیں ہونا چاہتا بلکہ اس کے پیچھے دینی اور نظریاتی مسائل ہیں ۔ فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے گزشتہ چھ عشروں میں کئی کوششیں ہوئیں ایک دور تھا کہ فلسطین میں یاسرعرفات کا طوطی بولتا تھا اور فلسطین اور فلسطینیوں کی قسمت کا فیصلہ پی ایل او اور یاسر عرفات کے ہاتھوں میں تھا۔ پی ایل او نے شروع میں تو انقلابی نعروں کے ساتھ بیت المقدس کی آزادی اور فلسطین کی تمام سرزمینوں کی غاصب صہیونیوں سے آزادی کے لئے صدائے احتجاج بلند کی لیکن یاسرعرفات کے یہ افکار و نظریات بہت جلد سازش اور سازباز کا شکار ہوگئے ۔ بالآخر حماس کی صورت میں ایک فلسطینی گروہ فلسطینیوں کی حقیقی آواز میں بدل گیا ۔امام خمینی ؒ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہی فلسطین کے مسئلے کو مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ گردانتے تھے آپ نے انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی فلسطین کے حوالے سے امت مسلمہ کی بیداری کے لئے کئی اقدامات انجام دیئے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تہران میں فوری طور پر اسرائیل کا سفارتخانہ ختم کرکے فلسطین کا سفارتخانہ قائم کیا گیا اور فلسطین کے مسئلے کے حل اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے نئی انقلابی حکومت نے فلسطینی قوم کی ہر طرح کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی امداد کرنے کااعلان کیا اسی دوران امام خمینی ؒکی دور اندیش قیادت نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی اور تمام امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ قرار دینے کے لئے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھرمیں فلسطینی مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے یوم القدس منانے کا اعلان کیا جمعة الوداع کے دن یوم القدس منانے کے اعلان نے دنیا بھر میں ایک بار پھر فلسطین کے مسئلے کو زندہ کردیا۔امریکہ مغربی ممالک اور صہیونی لابی جس مسئلے کو ایک معمولی علاقائی مسئلہ بنا کر عالمی مسائل کی فہرست سے نکالنا چاہتے تھے امام خمینیؒنے جمعة الوداع کے دن کو یوم القدس قرار دے کر انکی سازشوں کو نقش برآب ثابت کردیا ۔امام خمینی ؒ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی حضرت امام خمینیؒکی روش کو جاری رکھا اور فلسطین اور بیت المقدس کی رہائی کے لئے امام خمینیؒکے انقلابی ، اصولی ، اسلامی اور حق و حقیقت پر مبنی موقف کو آگے بڑھایا۔ اسرائیل کا وجود اور فلسطین پر ظالمانہ قبضہ حقیقت میں اس دور کی بڑی طاقتوں امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک کی سازشوں اور اسلام مخالف رویوں کا شاخصانہ ہے ۔ غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز قیام سے لے کر اب تک اگر اس ظالم ریاست کے ظلم و تشدد اور مظلوم فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسرائیل نے آج تک جو کچھ کیا ہے اس کے پیچھے مغرب اور امریکہ کی بھرپور حمایت تھی ۔اسرائیل کے مظالم کے خلاف عالمی اداروں میں کئی دفعہ قراردادیں آئیں لیکن امریکہ نے کبھی بھی ان قراردادوں کو منظور نہیں ہونے دیا اگر کبھی غلطی سے کوئی قرارداد امریکہ کے ویٹو سے بچ بھی گئی تو اسرائیل نے امریکہ اور مغربی ملکوں کی حمایت کی وجہ سے اسے کبھی بھی قابل توجہ اور قابل عمل نہیں سمجھا۔امریکہ اور مغربی ممالک کی اس بے جا اور بھر پور حمایت نے اسرائیل کی غاصب صہیونی ریاست کو اتنا جری بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف علی الاعلان عالمی اداروں کے فیصلوں کو نہیں مانتی بلکہ ان فیصلوں اور قراردادوں کے خلاف عمل کرتی ہے ۔امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت تو ممکن ہے اسلام دشمنی اور علاقے میں اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلط کرنا ہو لیکن جو بات امت مسلمہ کو خون کے آنسو رلاتی ہے وہ علاقے کے عرب ممالک کے حکمرانوں کا منافقانہ رویہ بھی ہے ۔ عرب ممالک کے سربراہ یوں تو اپنے ہر مسئلے کو عربوں کا مسئلہ قرار دے کر اسکے لئے شب و روز کوششیں کرتے ہیں لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا رویہ ہمیشہ دفاعی یا انتہائی کمزور رہا ہے ۔
عالمی اداروں کی خاموشی ، عرب حکمرانوں کا منافقانہ رویہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے میدان عمل میں آجائے یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم امت واحدہ کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبلہ¿ اوّل کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بن جائیں ۔حضرت امام خمینی ؒکے بقول یوم القدس یوم اسلام ہے اور فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں تمام عالم اسلام کا مسئلہ ہے ....
عالم اسلام کے لیے رمضان کا آخری ہفتہ وحدت کا ہے اور رمضان کا آخری جمعہ روز یوم القدس یا یوم اسلام ہے اور فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں تمام عالم اسلام کا مسئلہ ہے ۔ اسرائیل کا وجود اور فلسطین پر ظالمانہ قبضہ حقیقت میں اس دور کی بڑی طاقتوں امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک کی سازشوں اور اسلام مخالف رویوں کا شاخصانہ ہے ۔
اسی دوران امام خمینیؒکی دور اندیش قیادت نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی اور تمام امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ قرار دینے کے لئے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھرمیں فلسطینی مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے یوم القدس منانے کا اعلان کر کے مسلمانوں کے درمیان فلسطین کے مسئلے کوہر سال رمضان المبارک میں تازہ کرنے کا اسلوب دے دیا۔امریکہ مغربی ممالک اور صہیونی لابی جس مسئلے کو ایک معمولی علاقائی مسئلہ بنا کر عالمی مسائل کی فہرست سے نکالنا چاہتے تھے امام خمینی ؒ نے جمعة الوداع کے دن کو یوم القدس قرار دے کر انکی سازشوں کو نقش برآب ثابت کردیا ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے میدان عمل میں آجائے یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم امت واحدہ کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبلہ¿ اوّل کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بن جائیں ۔ اگر عالم اسلام اس دن کو کما حقہ منائے اور صیہونیوں کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کرنے کے لئے اس دن کا بخوبی استعمال کرے تو کافی حد تک دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے ، اسے پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے ۔
اس سال لاک ڈاون کی وجہ سے ہر سال کی طرح یوم القدس کی تقریبات اورجلوسوں کا انعقاد تو نہیں ہو سکے گا۔ لیکن دنیا آج میڈیا وار لڑ رہی ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا، کالمز اور تحاریر کے ذریعے بھیاس تحریک کو جاری رکھنا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر لازم ہے۔