افغانستان میں امن کے لئے عملی اقدامات

افغانستان میں امن کے لئے عملی اقدامات
افغانستان میں امن کے لئے عملی اقدامات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


افغانستان نائن الیون کے بعد کیسا ہو گا؟اس بارے میں گو مختلف آراء پائی جاتی ہیں، لیکن ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ افغانستان کا جو نقشہ امریکی چاہتے ہیں وہ تو بننا مشکل ہے، کیونکہ امریکی اپنے حواریوں اور مددگاروں کو آئندہ حکومت میں شامل دیکھنے کے خواہشمند ہیں وہ بار بار اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں مخلوط یا قومی حکومت قائم ہونی چاہئے، جس میں تمام قومیتوں اور لسانی گروہوں کی نمائندگی ہو اور سب مل جل کر افغانستان میں پائیدار حکومت قائم کریں۔ بظاہر تو یہ باتیں بڑی خوشنما لگتی ہیں اصولی بھی نظر آتی ہیں کتابی حیثیت میں اعلیٰ و ارفع بھی ہیں، لیکن زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔
امریکہ کا کسی سیاسی معاہدے اور مفاہمت کے بغیر افغانستان سے نکلنا اس بات کا غماز ہے  کہ اسے یہاں کے حالات کی بہتری میں چنداں دلچسپی نہیں،ویسے تو کئی ماہرین امریکی افواج کے جانے کے بعد یہاں طالبان حکومت کے قیام کے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں، کیونکہ یہ طالبان ہی ہیں، جنہوں نے20سالوں کے دوران امریکہ اور اس کے طاقت ور حواریوں کو قدم جمانے کے مواقع نہیں دئیے امریکی اگر یہاں جنگ نہیں جیت سکے  تو اس کی بڑی وجہ طالبان اور حقانی گروپ کی مقاومت اور مزاحمت ہے جسے توڑا  یا کمزور نہیں کیا جا سکا،اس لئے ماہرین کا یہ خیال کہ طالبان اقتدار پر بھی قابض ہو سکتے ہیں، خاصا وزنی اور مینی برحق نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے امریکیوں کے یہا ں سے نکلنے کے بعد طالبان اقتدار پر قبضہ کر لیں گے۔ امریکی اپنے بعد بھی امن قائم ہو تا نہیں دیکھنا چاہتے ان کی ماضی کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ وہ جہاں سے بھی نکلے لڑائی، مارکٹائی، بدحالی چھوڑ کر گئے۔ عراق کی مثال لے لیں لیبیا کو دیکھ لیں انہوں نے منظم اور خوشحال ممالک کو بدحال اور غیر منظم ممالک میں بدل ڈالا افغانستان میں تو ویسے بھی لاقانونیت اور بد امنی کا فروغ انہیں درکار ہے ایک تو بات یہ ہے کہ یہاں طالبان کی واپسی، یعنی اقتدار میں واپسی کے امکانات نظر آ رہے ہیں طالبان تازہ دم، منظم، تجربہ کار اور فتح کے عزائم لئے میدان عمل میں ہیں۔

طالبان نے پہلے بھی ایسے تمام گروہوں کو شکست فاش دیکر 1996ء میں یہاں اپنا سکہ جما یا اور چلایا تھا۔ وہ اب بھی ایسا کرنے کی پوزیشن میں نظر آ رہے ہیں، اِس لئے امریکیوں کی خواہش نہیں بلکہ ضرورت ہے کہ یہاں خانہ جنگی ہو تا کہ طالبان واک اوور نہ کر سکیں دوسرا خطے میں چینی اثرات بڑھ چکے ہیں چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ تین براعظموں کو محیط ہے۔ چین ایک عالمی اقتصادی طاقت بن چکا ہے چین کی عالمی اقتصادیات نے اس کی عالمی سیاست میں اہمیت بھی بڑھا دی ہے چین تدریجاً ایک عالمی طاقت کے منصب کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے سی پیک کے ذریعے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ وسط ایشیاء اور مشرق وسطیٰ تک رسائی حاصل کرنے جا رہا ہے۔ امریکہ کے لئے یہ صورتِ حال قابل قبول نہیں ہو سکتی۔امریکہ نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر سی پیک پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، چین نے ہاتھ بڑھا کر ایران سے دوستی کر لی۔ ایسے میں اب افغانستان ایک ایسی مملکت ہے جو کلیدی نظر آ رہی ہے،یہاں اگر بے چینی ہو، خانہ جنگی ہو تو ایک طرف طالبان کی فاتح کی پوزیشن کمزور پڑ جائے گی وہ تخت کابل پر قبضہ نہیں کر پائیں گے اس طرح افغان آپس میں اُلجھے رہیں گے اور امریکی جارحیت کو بھول جائیں گے۔دوسرا خطے میں خانہ جنگی کے باعث ایران اور پاکستان کے حالات بھی متاثر ہوں گے چینی منصوبہ سازی کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔ گویا اب خطے میں امریکی مفادات اسی میں ہیں کہ یہاں افغانستان میں امن قائم نہ ہو۔ ویسے امریکہ کہہ تو یہ رہا ہے کہ یہاں امن و امان قائم ہونا چاہئے مخلوط یا قومی حکومت قائم ہونی چاہئے۔ عورتوں کے حقوق انہیں ملنے چاہئیں، تعمیر و ترقی ہونی چاہئے وغیرہ وغیرہ لیکن قیام امن کے لئے عملی اقدامات نظر نہیں آتے،اور جانے سے پہلے بھی وہ اس بات کا اہتمام کر گیا ہے کہ یہاں امن و امان کا چلن عام نہ ہو سکے۔ افغانستان جلتا رہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -