میرے سامنے کی3 دانت کرکٹ ہی کی نذر ہوئے,اندرونی چوٹوں کا کوئی شمار نہیں.(مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر)

میرے سامنے کی3 دانت کرکٹ ہی کی نذر ہوئے,اندرونی چوٹوں کا کوئی شمار نہیں.(مشتاق ...
میرے سامنے کی3 دانت کرکٹ ہی کی نذر ہوئے,اندرونی چوٹوں کا کوئی شمار نہیں.(مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قسط:4

اس لئے ہم وضاحتاً ان کے برہان قاطع کی ایک ادنیٰ مثال پیش کرتے ہیں۔ ایک دن کرکٹ کے جسمانی فوائد (روحانی فیوض کا بیان آگے آئے گا) پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمانے لگے، ”کرکٹ سے کلائی مضبوط ہوتی ہے۔“ 
”کلائی مضبوط ہونے سے فائدہ؟“ 
”کرکٹ اچھا کھیلا جاتاہے۔“ 
ایک اور نازک موقع پر انہوں نے اسی قسم کی منطق سے ایک کج فہم کا ناطقہ بند کیا۔ ان صاحب کا استدلال تھا کہ کرکٹ میں ہر وقت چوٹ چپیٹ کا خدشہ لگا رہتاہے۔ مرزا کوقائل کرنے کی غرض سے انہی کے سر کی قسم کھاکے کہنے لگے، ”میرے سامنے کی تین دانت کرکٹ ہی کی نذر ہوئے۔ (اندرونی چوٹوں کا کوئی شمار نہیں) وہ تو کہیے بڑی خیر ہوئی کہ میرے اوسان خطا نہیں ہوئے۔ اگر میں عین وقت پر منہ نہ پھاڑ دیتا تو کہیں زیادہ نقصان ہوتا۔“ بعد کو انہوں نے کرکٹ کی راہ میں دیگر اعضائے بدن کے باری باری مجروح و ماو¿ف ہونے کی درد بھری داستان میچ دار سنائی اوریہ ثابت کر دیا کہ ان کے اپنے تاریخی زخموں کی مجموعی تعداد رانا سانگا کے ستر زخموں سے کسی طرح کم نہیں۔ 
مرزا نے جھنجلاکر کہا، ”مگر دستانے پیڈ اور گارڈ آخر کس مرض کی دوا ہیں؟“ 
وہ صاحب بولے، ”دیکھئے نا! یہ ذرہ بکتر تو خود اس بات کی دلیل ہے کہ کھیل واقعی خطرناک ہے۔ ان حفاظتی تدابیر کانام سن کر مجھے اس وقت اپنے گاؤں کا وہ زمیندار یاد آ رہا ہے جس نے 70 سال کی عمر میں ایک 16سالہ لڑکی سے شادی کی تھی۔ ابھی سہاگ کے جوڑے کا کلف بھی ٹھیک سے نہ ٹوٹا ہوگا کہ وہ حالات پیدا ہوگئے جن میں بعض جلد باز اصحاب قتل کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن آدمی تھا بلا کا دور اندیش۔ بہت کچھ غور و خوض اور اپنی طبیعت کے فطری رجحان کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا کہ خود کشی نسبتاً آسان رہے گی۔ قتل میں بڑا کھٹر اگ ہے۔ یادرہے کہ اس زمانے میں ریل اور بندوق کاغلط استعمال عام نہیں ہوا تھا۔ اسلیے غیور حضرات کو کنویں میں جھانکنا پڑتے تھے۔ لیکن ان دنوں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی اور کنویں کا پانی ایسا ٹھنڈا برف ہو رہا تھا کہ غصے میں کوئی آدمی کود پڑے تو چھن سے آواز پیدا ہو۔ لہٰذا زمیندار نے ایک روئی کا فرغل اور 2 موٹے موٹے لحاف اوڑھ کر کنویں میں چھلانگ لگائی اور آخر انہی لحافوں نے اسے نہ صرف سردی بلکہ حرام موت سے بھی بچا لیا۔“ 
مرزا چٹخارہ لے کربولے، ”بہت خوب! آئندہ آپ اس لذیذ حکایت کو کرکٹ کے بجائے نکاح ثانی کے خلاف بطور دلیل استعمال کیجئے گا۔“ 
ہم نے بیچ میں پڑ کر مصالحت کرانے کی کوشش کی، ”ظاہر ہے لحاف اوڑھ کر کر کٹ نہیں کھیلاجا سکتا۔ مگر ایک بات آج تک میری سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ کھلاڑی دبیز دستانے پہنتے ہیں، بھاری بھرکم پیڈ چڑھاتے ہیں، گارڈ باندھتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا الابلا اپنے اوپر منڈ لیتے ہیں۔ جب کہیں اپنے کو گیند سے محفوظ سمجھتے ہیں۔ لیکن آخر اس کے بجائے نرم گیند کیوں نہیں استعمال کرتے؟ سیدھی سی بات ہے۔“ 
مرزا صریحاً کنی کاٹ کر فلسفہ بگھارنے لگے، ”حضرت! مجھے سزا کے طور پر بھی وہ کھیل منظور نہیں جس میں چوٹ کا قوی احتمال نہ ہو۔ مردوں کو چوٹ کھاکے مسکرانے کی عادت ہونی چاہئے۔“ 
”چوٹ کھانے سے حاصل؟“ 
”آدمی مضبوط ہوتا ہے۔“ 
”اس سے کیا ہوتا ہے؟“ 
”آئندہ چوٹ لگے تو چیخ نہیں نکلتی۔“ 
مرزا کو کرکٹ سے کتنی دلچسپی اور اس کی باریکیوں سے کس حد تک واقفیت ہے، ہمیں اس کا تھوڑابہت اندازہ 5سال قبل ہوا۔ ٹیسٹ کا چوتھا دن تھا اور ایک سلو بالر بولنگ کر رہا تھا۔ اس کی کلائی ایک ادنیٰ اشارے، انگلیوں کی ایک خفیف سی حرکت پر گیند ناچ ناچ اٹھتی اور تماشائی ہر گیند پر کرسیوں سے اٹھ اٹھ کر داد دیتے اور داد دے کر باری باری ایک دوسرے کی گود میں بیٹھ جاتے۔ ہمارے پاس ہی ایک میم کے پیچھے کرسی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا بوڑھا پارسی تک، اپنے پوپلے منہ سے سیٹی بجا بجا کر بولر کا دل بڑھا رہا تھا۔ ادھر اسٹیڈیم کے باہر درختوں کی پھننگوں سے لٹکے ہوئے شائقین ہاتھ چھوڑ چھوڑ کر تالیاں بجاتے اور کپڑے جھاڑ کر پھر درختوں پر چڑھ جاتے تھے۔ ہر شخص کی نظریں گیند پر گڑی ہوئی تھیں۔ ایک بارگی بڑے زور سے تالیاں بجنے لگیں۔ 
”ہائے! بڑے غضب کی گگلی ہے!“ ہم نے جوش سے مرزا کا ہاتھ دبا کر کہا۔ 
”نہیں یار! مدراسن ہے!“ مرزا نے دانت بھینچ کر جواب دیا۔ 
ہم نے پلٹ کر دیکھا تو مرزا ہی کی رائے صحیح نکلی، بلکہ بہت خوب نکلی۔ 
ان کی دلچسپی کا اندازہ اس اہتمام سے بھی ہوتا ہے جو پچھلے تین برس سے ان کے معمولات میں داخل ہو چکا ہے۔ اب وہ بڑے چاؤ سے لدے پھندے ٹسٹ میچ دیکھنے جاتے ہیں۔ ڈیڑھ دو سیر بھو بل کی بھنی مونگ پھلی، بیٹری کا ریڈیو اور تھرماس! (اس زمانے میں ٹرانزسٹر عام نہیں ہوئے تھے) یہاں ہم نے ناشتے دان، سگریٹ، دھوپ کی عینک اور اسپرو کی ٹکیوں کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ یہ تو ان لوازمات میں سے ہیں جن کے بغیر کوئی دور اندیش آدمی کھیل دیکھنے کاقصد نہیں کرتا۔ یوں تو تازہ اخبار بھی ساتھ ہوتا ہے مگر وہ اس سے چھتری کا کام لیتے ہیں۔ خود نہیں پڑھتے البتہ پیچھے بیٹھنے والے باربارصفحہ الٹنے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔ دن بھر ریڈیو سے چمٹے کمنٹری سنتے رہتے ہیں بلکہ ہمارا خیال ہے کہ انہیں کمنٹری سننے سے زیادہ سنانے میں لطف آتا ہے۔ البتہ کمنٹری آنا بند ہو جائے تو کھیل بھی دیکھ لیتے ہیں۔ یا پھر اس وقت سر اٹھاکر فیلڈ کی طرف دیکھتے ہیں جب ریڈیو پر تالیوں کی آواز سے کانوں کے پردے پھٹنے لگیں۔ میچ کسی اور شہر میں ہورہا ہو تو گھر بیٹھے کمنٹری کے جوشیلے حصوں کوٹیپ پر ریکارڈ کرلیتے ہیں اور آئندہ ٹسٹ تک اسے سنا سنا کر اپنا اور دوسرے مسلمان بھائیوں کاخون کھولاتے رہتے ہیں۔ (جاری ہے )

کتاب " چراغ تلے " سے اقتباس