حضرت بابا محمد سردار چمٹے والاؒ

حضرت بابا محمد سردار چمٹے والاؒ
حضرت بابا محمد سردار چمٹے والاؒ

  

1354ہجری14جمادی الاول بمطابق14اگست 1935ءبروز بدھ کو گاﺅں کالی صوبہ تحصیل کامونکی ضلع گوجرانوالہ میں درویش بابا محمد سردار گاﺅں کے ایک مزدور محمد نظام دین ولد پیراں دتہ کے ہاں پیدا ہوئے ۔ محمد نظام دین کی اولاد جس میں چھ بیٹے ، محمد تاج، محمد معراج ، محمد سراج ،محمد بشیر ، محمد نذیر اور محمد سردار اور ایک دُختر رسول بی بی تھی ۔بابا جی اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔بابا جی کی والدہ ریشم بی بی سیدھی سادی نیک خاتون تھی ۔ جب محمد نظام دین کے دو بڑے بیٹی ایک ہی مہینے میں ناگہانی موت کی نذر ہوئے تو نظام دین نے فوری طور پر گاﺅںچھوڑا اور تحصیل کامونکی اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہوگیا، لیکن جواں بیٹوں کی موت کے صدمے سے وہ کچھ ہی دن جی سکا۔ باباجی گھر میں سب سے چھوٹے تھے، ہر وقت ماں کی گود میں پڑے لوریاں سنتے رہتے ۔بابا جی چھ سال کی عمر کے تھے کہ ان کی ماں کا انتقال اُس وقت ہوا جب گھر میں سوائے بابا جی کے اور کوئی دوسرا بھائی یا بہن نہ تھی ۔ جان نکلتے وقت ماں نے پانی مانگا تو بابا جی روتے ہوئے گھڑے کی طرف دوڑے، مگر گھڑا خالی تھا،نل دیکھا تو نل بھی سوکھا تھا، بابا جی نے گھرمیں پڑے ایک گنے کے ٹوٹے کو ماں کے منہ میں زور لگا کے نچوڑدیا تو ماں نے باباجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ "جا پترا تینوں رنگ لگن"

ماں باپ کے فوت ہوتے ہی بابا جی کچھ دیر گھر رہے، لیکن روح کو سکون نہ ملا تو انہوں نے اپنا گھر چھوڑ دیا اور 1944ءمیں ایک ہندو حکےم کی دکان پر شاگردی اختیار کرلی اور تقریباً3سال تک نسخے پیستے رہے۔قیام پاکستان کے بعد باباجی سیدھے ملتان شریف حضرت شاہ شمس تبریز کے مزار پر حاضر ہوئے، وہاں چار سال تک جھاڑو دیا پھر وہاں سے روحانی فیض لے کر اپنے اندر کو مزید روشن کرنے کے لئے ڈیرہ غازی خان سرکار سےد احمدسخی سلطان کے مزار شریف پر حاضر ہوئے۔ کئی سال وہاں مجاور بنے رہے ۔اپنی روح کو روحانیت کی حقیقت سے منور کیا، فقر اپنایا اور دنیاوی ظاہر داری کو ترک کر دیا۔واپس اپنے گاﺅں کالی صوبہ آئے، لوگوں پر خود کو ظاہر نہ کیا اور محنت مزدوری کرکے وقت گذارنے لگے۔ 1967ءمیں گاﺅں میں باباجی کے دور کے کچھ رشتہ دار تھے، جن میں اللہ رکھا نے اپنی بیٹی رشیداں بی بی کا عقد بابا جی سے کردےا،بابا جی اپنی شادی کے بعد جب کامونکی آئے تو پتہ چلا کہ بابا جی کا سارا خاندان فوت ہوچکا ہے، لہذا بابا جی نے صبر کےا اور دن کو مزدوری اور رات کو اپنے اللہ کو رو رو کر مناتے رہے۔

1980ءمیں جب باباجی کے پانچ بچے تھے تو کافی دنوں سے بابا جی کسی کام پر نہیں جارہے تھے، بلکہ مسلسل چلہ کشی کررہے تھے ۔گھرمیں کھانے پینے کے لئے جو تھا، سب ختم ہوگیا، یہاں تک کہ ان کی بیوی نے چھان سے سوکھی روٹیاں نکال کر پانی میں پکا کر بچوں کو پانچ روز تک کھلائیں، لیکن بابا جی مسلسل چلہ کشی کئے جارہے تھے، بابا جی کے چلے کا آخری دن تھا کہ بیوی نے اپنے بھائیوں کو شکایت لگا ئی کہ اِن کے میاں کوئی کام کاج نہیں کررہے، بلکہ مسلسل کمرے میں بند چلہ کشی کئے جارہے ہیں۔ ادھر باباجی نے اپنا چلہ مکمل کےا اور کمرے سے باہر آئے ۔ بیوی کے بھائیوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو بابا جی نے کہا کہ اپنی ناراضگی دور کرلیں جو آپ کی بہن کو چاہئے، میں وہ دی دیتا ہوں، تو بیوی نے کہا کہ میرے سارے اخراجات آج ہی پورے کریں، اِس پر باباجی نے کہا کہ آج رات کو تمہیں سب مل جائے گا۔

رات ہوئی تو باباجی نے بیوی سے کہا کہ رات کو اگر تم کچھ دیکھو تو زبان مت کھولنا، جب پچھلا پہر ہوا تو بابا جی نے مصلے پربیٹھ کر دونوں ہاتھ اللہ کے حضور بلند کئے تو بابا جی کی بیوی بتاتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ باباجی کے اوپر پاکستانی کرنسی کی بارش ہورہی ہے اور بابا جی اپنے تکیے کے غلاف میں بھر رہے ہیں، اچانک بیوی اتنی زیادہ دولت دیکھ کر نہ رہ سکی تو کہنے لگی کہ "لگتا ہے آج اللہ کو سارا لوٹ لو گے"،بس ےہ کہنا تھا کہ ساری دولت غائب ہوگئی اور بابا جی نے بیوی کے یہ کلمات سن کر کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے عطا کئے مگرتم نے بول کر گنوا دئیے، اب جاﺅ اور انتظار کرو۔اِسی طرح ایک بار بابا جی اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ بکریوں کے لئے چارہ لینے جارہے تھے کہ راستے میں پانی کا چھوٹا نالہ تھا جس کے پل سے گزر کر آگے کھےتوں میں جانا تھا، جیسے ہی پل سے گذرے تو سامنے سے کماد کا ایک چھکڑا بیلوں کے ساتھ آرہا تھا، گنے دیکھ کر بابا جی کا چھوٹا بچہ بولا کہ ابا جی مجھے گنا لی کے دیں۔ بابا جی نے چھکڑے والے سے کہا کہ اللہ کے بندے میرے بچے کو ایک چھوٹا سا گنے کا ٹوٹا تو دینا، لیکن چھکڑے والے نے کہا: جا بابا پچھے ہٹ، صبح صبح مانگ ڈال دی ہے، منڈی سے آکر لے لینا ۔

اِس پر بابا جی نے بچے سے کہا بےٹا رہنے دو، میں تمہیں منڈی سے لادوں گا، لیکن بچے نے ضد کرلی اور رونا شروع کردیا کہ میں نے گنا ہی لینا ہے ۔بابا جی نے پھر چھکڑے والے سے کہا کہ یار ےہ پیسے لے لو اوربچے کو گنا دے دو بچہ ضد کر بیٹھا ہے ۔ چھکڑے والے نے آگے سے گالی نکال کر کہا کہ جا بابا صبح صبح ہمارے منہ مت لگ۔ بابا جی نے کہا کہ بچے کو رولایا ہے تو جا یہ پل پار کرکے دکھا۔ اِس پر چھکڑے والا ہنسنے لگا اور کہنے لگا بےٹھا رہ آیا بڑا ولی اللہ۔ ےہ کہنا تھا کہ چھکڑا جونہی پُل کے اوپر پہنچا تو سےدھا نالے کے اندر گرگےا، لوگوں نے اُس کی مدد کی اور باہر نکالا جےسے ہی وہ باہر نکلا، تو وہ بابا جی کے قدموں میں آلگا، معافی مانگنے لگا،البتہ بابا جی نے اُسے معاف کردیا۔

بابا جی ہمیشہ لوگوں میں مسکراہٹیں بکھیرتی رہے، بچوں سے بہت پیار کرتے، ا گر کہیں کسی بچے کو روتا دیکھ لیتے تو اُسے ضرور چپ کراتے اور چیزیں لے کر دیتے ۔ عاجزی ،فقر ہر طرح سے اُن کا اوڑھنا بچھونا تھا۔بابا جی نے اپنے وصال سے ایک دن پہلے ہی اپنے بیٹوں کو بتا دیا کہ میں نے کل چلا جانا ہے، مجھے کہیں کسی ڈاکٹر کے پاس مت لے جانا، جب مرجاﺅں گا تو جہاں مرضی لے جانا، بالکل ایسا ہی ہوا اور بابا جی ہنستے کھےلتے اپنی اولاد، جن میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑ کر 26ذی قعد 10اکتوبر 2012ئبروز بدھ یعنی اُسی روز جس دن وہ اِس دنیا میں آئے کو تحصیل کامونکی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔     ٭

مزید :

کالم -