سانحہ ¿ راولپنڈی اور حکومتی رٹ
راولپنڈی میں دس محرم کو نہایت بے دردی سے، جو خون بہایا گیا ہے وہ پوری قوم، بالخصوص حکمرانوں کے لئے قابل ِ افسوس بھی ہے اور باعث شرم بھی۔ حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے ادارروں نے سخت نااہلی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے۔ اس سانحہ کو شیعہ سنی فسادات قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ یہ ایسے موقع پر برپا ہوا، جب شیعہ مسلک کے لوگوں کا جلوس اہل ِ سنت کے گڑھ اور مرکزی علاقے سے گزر رہا تھا۔ عین جمعہ کی نماز کے وقت اس روٹ پر جلوس نکالنے کی اجازت دینے والے حکومتی اہل کاروں کی عقل و دانش پر رونا آتا ہے۔ آخر یہ روٹ اور یہ وقت کیوں متعین کیا گیا تھا، جبکہ پہلے سے معلوم تھا کہ دونوں جانب کشیدگی موجود ہے؟ مجرموں کا تعین اور پھر شواہد و حقائق کی روشنی میں عدالتوں سے ان کو قرار واقعی سزا دلانا حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے، مگر جن حکمرانوں کی بے بسی اور نااہلی و غیر ذمہ دارانہ رویوں کا منظر چند ایک تصاویر میں قوم کے سامنے آیا ہے، اس کی روشنی میں کسی نتیجہ خیز فیصلے کی امید قائم کرنا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
فساد اور خون ریزی کے دوران بلوا کرنے والوں نے جس پھرتی اور کمانڈو انداز میں مسلح پولیس اہل کاروں کو زمین پر لٹا کر اُن سے بندوقیں چھینیں اور فائرنگ کی، اس سے یقین ہو جاتا ہے کہ اس واقعہ میں تربیت یافتہ جنگجو ملوث ہیں۔ پولیس کے مسلح کارندوں کی بے بسی اور بزدلی نے پنجاب پولیس کے بارے میں قائم سابقہ تصورات کو پاش پاش کر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پولیس کی بھرتی میں رونما ہونے والی بدعنوانی اور اُن کی تربیت میں پائے جانے والے جھول کا کون ذمہ دار ہے؟ ملک کے باخبر اور دردِ دل رکھنے والے اہل الرائے بارہا حکومت کو متنبہ اور متوجہ کر چکے ہیں کہ بلیک واٹر اور بھارتی ایجنٹ ملک میں جگہ جگہ تخریب کاری اور قتل و غارت گری کی وارداتیں کر رہے ہیں۔ یہ تصاویر دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ اس واقعہ میں سرگرم عمل قاتل بلیک واٹر اور ”را“ کے تریب یافتہ کارندے ہی ہو سکتے ہیں۔ دارالحکومت اور تمام اہم شہروں میں بلیک واٹر کی موجودگی کی کئی رپورٹیں بھی ذرائع ابلاغ میں چھپتی رہی ہیں۔
حکومت نے راولپنڈی کو دس محرم اور اس کے بعد بھی کرفیو کی پابندی لگا کر جس طرح اندھیروں اور بے یقینی میں دھکیلا ہے، اس کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا، تو حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے۔ یہ دلیل مان بھی لی جائے، تو کیا حکومت اور اس کے تمام ادارے اب اس قدر بے بس اور بودے ہو چکے ہیں کہ دارالحکومت سے متصل اور جی ایچ کیو کے مرکزی شہر پر بھی حکومتی رٹ متزلزل ہو گئی ہے۔ راولپنڈی کا افسوس ناک واقعہ رونما ہونے کے بعد ٹی وی چینلوں پر خبروں کو سنسر، بلکہ بین کر کے حکومت نے وقتی طور پر اس آگ کے شعلے کے دیگر شہروں تک پہنچنے کا راستہ یقینا بند کر دیا تھا، مگر حکمرانوں کا کام قوم کو بے خبری اور بے یقینی کے اندھیروں اور افواہوں کے اندھے غار میں دھکیلنے کی بجائے ملک کے نظم و نسق کو درست کرنے کی بنیادی ذمہ داری پوری کرنا ہوتا ہے۔
اب حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے، تو حکومت، اس کے کارکنوں، عینی گواہوں اور تحقیقاتی کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد مجرموں کا تعین کیا جائے اور جو عناصر بھی اس وحشیانہ کارروائی کے ذمہ دار پائے جائیں، ان کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ بے گناہ انسانی جانوں کا قتل، نمازیوں اور طلبہ کی گردنیں کاٹنے کا جرم اور دکانوں و مکانوں کو آگ لگانے کی واردات سے ہر مسلمان کا دل زخمی ہے۔ اس پوری واردات سے کم از کم یہ حقیقت تو کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ یہ واقعہ کسی وقتی اشتعال یا حادثے کے نتیجے میں رونما نہیں ہوا، بلکہ یہ پہلے سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبے کا حصہ تھا۔ اب حکومت اور اس کے اداروں کے امتحان کو وہ اپنی کوتاہی کی تلافی کس طرح کرتے ہیں۔ ٭