پاکستان میں اب صرف اللہ کا حکم چلے گا

پاکستان میں اب صرف اللہ کا حکم چلے گا
پاکستان میں اب صرف اللہ کا حکم چلے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ پاکستان میں اب صرف اللہ کا حکم چلے گا۔ پاکستان اور ظالم طبقہ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ نظریہ پاکستان کے ساتھ بے وفائی اور غداری کرنے والوں کو قوم ایک لمحے کے لئے برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ آئین میں اللہ کو حقیقی بادشاہ اور اسلام کو ریاست کا مذہب تسلیم کیا گیا ہے۔ بدکرداروں کی بے تدبیری سے پاکستان ٹوٹا اور بنگلہ دیش بنا۔ سیاسی دہشت گردوں نے معیشت، سیاست اور عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھاکہ میں دنیا بھر میں پاکستان کو ایک ماڈل فلاحی ریاست بناناچاہتاہوں، جس کا دستور اور منشور قرآن ہوگا۔ عوام پاکستان کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ پاکستان ہم سب کا گھر ہے۔ ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں جس کو ساحل تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔پاکستان کی عزت کے ساتھ ہی دنیا میں عزت و وقار ہے۔ پاکستان سے محبت وطن پرستی نہیں ،بلکہ نظریہ اور دین پرستی ہے۔
سراج الحق نے بجا طور پر کہا کہ پاکستان میں جماعت اسلامی واحد جمہوری جماعت ہے، جس میں ایک مزدور کا بیٹا بھی امیر جماعت بن سکتا ہے ،جبکہ باقی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے گروہ ہیں جو جمہوریت کے نام پر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں 67 سال میں ایک لمحہ کے لئے اسلامی نظام نافذ نہیں کیا گیا۔ جماعت اسلامی کے پاس ظالمانہ اور جابرانہ نظام حکومت کے متبادل عادلانہ نظام ہے۔ ہمارے پاس ملکی ترقی و خوشحالی کا ویژن اور یونین کونسل کی سطح تک دیانتدار قیادت موجود ہے۔ ملک پر 68 سال سے ایک وی وی آئی پی کلاس حکومت کر رہی ہے جو خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ اس کلاس کے سکول کالج اور ہسپتال الگ ہیں ان کے دانت میں تکلیف ہو تو یہ علاج کے لئے لندن بھاگ جاتے ہیں ،جبکہ غریب آدمی کو ہسپتالوں سے ڈسپرین کی ایک گولی تک میسر نہیں۔ اس اشرافیہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے عوام کو ان ظالم و جابر حکمران لیڈروں سے بچانے کے لئے جماعت اسلامی نے تحریک تکمیل پاکستان کا آغاز کر دیا ہے۔

بقول سراج الحق سیاسی برہمن اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ظالم طبقے نے عوام اور اداروں کو یرغمال بنایا یہ وہ لوگ ہیں جو قومی دولت پر علاج کے لئے لندن جاتے ہیں۔ پاکستان اور ظالم طبقہ ایک ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔ ملک کا سارا نظام ڈکٹیشن پر چل رہا ہے۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر پیسہ بیرون ملک منتقل کیا گیا۔ سیاسی نمائندے خود کو احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

اسلام اعتدال کا دین ہے اور پور ی انسانیت کے لئے دوستی کا پیغام ہے۔ڈاکٹر صفدر محمود وقتاً فوقتاً اہلِ پاکستان کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ پاکستان اسلامی نظام نافذ کرنے کے لئے وجود میں آیا تھا۔ ان کے پاس قائداعظم کی تقاریر کے متعدد حوالہ جات موجود ہیں، جن کے ذریعے وہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیکولر دانشور باز نہیں آتے اور وہ گاہے بگاہے سیکولر ازم کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں سیکولر ازم کا نفاذ ممکن نہیں، کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام حکومت 1973ء کے دستور میں طے کر دیا گیا ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اسلامی نظام کے نفاذ کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جو ہنوز کامیاب نہیں ہو سکیں۔

دو قومی نظریہ سے نوجوانوں کو رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ اسلام ہمارا مذہب ہے اور پاکستان کی بنیادمیں اسلامی نظریے کو دو قومی نظریہ نے بھرپورطریقے سے بیان کیا ہے۔ طاغوتی قوتوں نے مسلم دنیا کے نوجوانوں کو اپنا ٹارگٹ بنا رکھا ہے اور اسلام کا نام لینے والے نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔پاکستان میں اسلامی نظام کے علاوہ اور کوئی نظام چل ہی نہیں سکتا اور یہ سب کچھ آئین کا بھی حصہ ہے، جس کے لئے ہمارے آباؤاجداد نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انگریز نے اسلامی قوانین اپنے معاشرے میں نافذ کر کے اپنے ممالک میں امن کو فروغ دیا اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اسلام کو چھوڑا اور انگریز کے قانون کو اپنے اوپر نافذ کر کے دہشت گردی کے چنگل میں اپنے آپ کو پھنسا دیا۔یہ حقیقت ہے کہ دین اسلام ہی اللہ تعالیٰ کی وہ آخری نعمت ہے، جو اس عالم کو دی گئی ہے اور عصرِ حاضر کی تاریخ میں پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے، جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے، مگر۔۔۔!
آئین کا تقاضا ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ کیاجائے۔ پاکستان کی ہر حکومت خودآئین کی خلاف ورزی کرتی رہی ہے۔ حکمران اور سیاستدان امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں۔آئین کے مطابق قرآن اورعربی کی ترویج کے بجائے انگریزی کو رائج کیا گیا۔ موجودہ آئین میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ملک میں پندرہ لاکھ سے زائد مساجدہیں،ان کا معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ہے۔ حکومت کی طرف سے مساجد کے آئمہ کے لئے کوئی فلاحی منصوبہ نہیں ہے۔عوامی مسائل کا حل خلافت راشدہ ،قرآن کے نظام میں ہے۔محنت کشوں ،مزدوروں، طلبا،یتیموں،بیواؤں کے مسائل کا حل یہی پیش کرتا ہے۔شریعت کے نظام کے بغیر مایوسی جنم لیتی ہے۔اگر اسلامی نظام نہ ہوا تو کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔اسلام صرف عبادات تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ سیاست،معیشت،معاشرت،سماجیات، جنگ عدل،امن کے گر بھی سکھاتا ہے۔اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس نظام میں کسی اور طریقہ کار کو شریک نہیں کیا جا سکتا۔

ملک میں پر امن انقلاب کی ضرورت ہے یہ پر امن انقلاب فوج ،ڈنڈے یا سازش کے ذریعے نہیں آئے گا، بلکہ عوامی سوچ کی تبدیلی سے حالات تبدیل ہوں گے۔دنیا کے جن ممالک میں بھی لوگوں نے جمہوریت کے ذریعے اسلام کی طرف چلنا شروع کیا تو جمہوریت کو سبوتاژ کر دیا گیا۔پاکستان کے عوام جلد اپنے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی خوشخبری سنیں گے۔ *


مزید :

کالم -