پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی معاہدہ

پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی معاہدہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان اور روس کے درمیان جمعرات کو دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے تحت روس پاکستان کو 35جدید ترین ایم آئی گن شپ ہیلی کاپٹر دینے کے ساتھ فوجی و تکنیکی تعاون بھی فراہم کرے گا،معاہدے پر دستخط کی تقریب وزارت دفاع راولپنڈی میں ہوئی۔روسی وزیر دفاع 41 رکنی وفد کے ساتھ پاکستان کے دورے پر تھے ، کسی بھی روسی وزیر دفاع کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کے تحت پاکستان اور روس خطے میں امن اور استحکام قائم کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پاک روس دفاعی معاہدے کوتاریخی سنگ میل قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے لئے روس کے اقدامات قابلِ تحسین ہیں، دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو مزید فروغ دیا جائے گا۔ اس موقع پرروسی وزیر دفاع جنرل سرگئی شوئے گو نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے عوام کی قربانیاں قابلِ تحسین ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دفاعی پیداوار میں بھی ترقی کر رہا ہے، دنیا پاکستان کے ساتھ تجارت کرنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی جنرل سرگئی شوئے گو سے ملاقات کے دوران پاکستان اور روس کے درمیان دو طرفہ تعلقات سمیت دفاعی تعاون بڑھانے پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں تجارت کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے، پاکستان میں روس کی کمپنیوں کے لئے توانائی سمیت متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔وزیراعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم میں مستقل رکن بننے کی حمایت کرنے پر روس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر دہشت گردی اور منشیات کی روک تھام کے لئے اقدامات کرنے کے لئے تیار ہے۔
پاکستان اور روس کے تعلقات میں اسے ایک نیا موڑ تصور کیا جا رہا ہے، جو یقیناًخوش آئند ہے۔دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ سفارتی تعلقات کی بنیاد یکم مئی1948ء کو رکھی گئی، لیکن ان کا رشتہ بہت زیادہ خوشگوار نہیں رہا، ماضی میں مختلف وجوہات کی بنا پر دونوں ممالک کے درمیان تلخیاں رہی ہیں، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ تلخ یادوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھا جائے، ان کو مٹانے کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔ دونوں ممالک اپنی پرانی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اسے سدھارنا چاہتے ہیں ، آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ موجودہ روس ایک جمہوری ملک ہے، کوئی اشتراکی سوویت یونین نہیں ہے اور نہ ہی یہ سرد جنگ کا زمانہ ہے ، روسی عوام باوجود تمام تر مغربی تنقید کے روس کے سابق صدر اور موجودہ وزیراعظم ولادی میرپوٹن کے انداز حکمرانی سے خوش ہیں، روس ترقی کے سفر پربھرپور طریقے سے گامزن ہے۔بعض مبصرین کے مطابق روس کے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی ایک وجہ پاک امریکہ تعلقات بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اس بات کے آثار کم ہی معلوم ہوتے ہیں،امریکہ اور روس کے درمیان بھی اب اس طرح کی محاذ آرائی نہیں رہی۔ ویسے بھی یہ دو طرفہ تعلقات مستحکم کرنے کا زمانہ ہے، ایک دوسرے سے کٹ کر اور لڑ جھگڑکر رہنا ممکن نہیں ہے، پاکستان اور روس دونوں ایک ہی خطے میں موجود ہیں اور یہاں امن و استحکام ، دہشت گردی سے نمٹنے اور منشیات کی روک تھام کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ضروری ہے۔
پاکستان روس سے ماضی میں اِسی نوعیت کے ہیلی کاپٹرز اور دیگر فوجی سازوسامان خریدتا رہا ہے تاہم افغانستان میں سوویت افواج کے داخلے اور افغان جنگ شروع ہونے کے بعد روس نے پاکستان کو فوجی سازوسامان کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ حال ہی میں روس نے خود ہی پاکستان پر سے یہ پابندی اٹھا لی ہے، جس سے پاکستان کی طرف اس کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔ بعض دانشور اس میں بھارت کے لئے کوئی مبہم پیغام ڈھونڈ سکتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ رواں سال کے آخر میں امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد اس خطے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے تمام ممالک کو مل جل کر اقدامات کرنے پڑیں گے۔ وزیراعظم نواز شریف نے منتخب ہونے کے بعد روس سے تعلقات بہتر بنانے کا اعلان بھی کیا تھا، جس پر وہ عمل پیرا نظر آ رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے روس اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی بدولت پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ میں بھی کمی آ جائے، تاشقند معاہدے کی یاد دہرائی جا سکے اور معاملات افہام و تفہیم سے طے کئے جا سکیں۔
پاکستان اس وقت روس کے ساتھ542 ملین ڈالر کی تجارت کر رہا ہے، جو معیشت دانوں کی نظر میں روس کے معاشی حجم کے اعتبار سے نہ ہونے کے برابر ہے اوردونوں ممالک کے درمیان تجارت کو اگلی ایک دہائی میں ایک ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے ، اس کے لئے روسی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے حالات سازگار ہونے کا یقین دلانا بہت ضروری ہے۔
موجودہ حکومت پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لئے دوسرے ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کے لئے بھر پوراقدامات کر رہی ہے۔ چین ،جرمنی، برطانیہ اور اب روس کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے مستقبل کے روشن ہونے کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ پاکستان امن پسند ملک ہے ، دو طرفہ تعلقات کی اہمیت کو سمجھتا ہے، روس کے ساتھ دفاعی و تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ دوسرے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات خطے کے وسیع تر مفاد میں ہیں۔ بھارت کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے ، جارحیت اور اشتعال انگیزی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا،گولیاں برسا کر امن کی امید نہیں رکھی جا سکتی، گولہ بارود کی زبان استعمال کرکے وہ پاکستان کو دبا سکتا ہے اور نہ ہی اسے عالمی سطح پر تنہا کر سکتا ہے۔ تعلقات میں کتنی ہی کڑواہٹ کیوں نہ رہی ہو، وسیع تر ملکی مفادمیں ان میں بالآخر شیرینی گھولنی ہی پڑتی ہے ،آگے بڑھنے کے لئے پرانی تلخ یادوں پر مٹی ڈالنی پڑتی ہے،پاکستان نے تو یہ ثابت کر دیا ہے ، بھارت بھی جتنی جلدی سمجھ جائے اتنا ہی اس کے حق میں بہتر ہے۔

مزید :

اداریہ -