’’اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘

’’اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘
’’اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے پاکستان پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعت کی ’’قبولیت‘‘ کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اوکاڑہ اور لاہور کے ضمنی انتخابات سے لے کر پنجاب میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی الیکشن تک پیپلز پارٹی کو جن نتائج کا سامنا کرنا پڑا، اُس کی حقیقت سب کے سامنے ہے۔ ایک بڑی سیاسی جماعت ہونے کا شرف رکھنے والی یہ جماعت جس قدر غیر مقبول ہوئی اور حالیہ انتخابات میں جو ہزیمت اٹھائی اُس پر پیپلز پارٹی کے ورکرز، سپورٹرز اور ووٹرز ہی نہیں، سیاست سے دلچسپی رکھنے والے تجزیہ کار بھی حیران اور پریشان ہیں۔پیپلز پارٹی اتنی غیر مقبول جماعت ہو جائے گی؟ کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کیا پیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دے پائیں گے اور کیا پیپلز پارٹی ایک بار پھر سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں سب سے مقبول ترین جماعت بن جائے گی؟ اس بارے تجزیہ کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ ’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ کے مصداق اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے اور اس جماعت کو کہیں کا نہیں رہنے دیا جو چند سال پہلے تک ملک کی سب سے مقبول ترین جماعت تھی اور جس کے نام کا ڈنکا پورے ملک میں بجتا تھا۔


اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اس پارٹی کو جِلا بخشی اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے اِسے ملک کی ایسی سیاسی جماعت بنا دیا جس کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکا۔ اُسے ابتداء ہی میں ملک کے طول و عرض میں نہ صرف بہت پذیرائی حاصل ہوئی بلکہ ہر خاص و عام میں اس کے نام کا ڈنکا بھی بجنے لگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق اگرچہ سندھ سے تھا لیکن پنجاب نے بھی انہیں اُسی قدر پذیرائی بخشی جس قدر پذیرائی انہیں سندھ میں حاصل تھی۔ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی مقبولیت دیگر دونوں صوبوں ہی کی طرح برقرار تھی اور یہ سب ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی شخصیت اور برسوں سے رائج جاگیردارانہ نظام کے خلاف بنائے گئے پارٹی منشور کا نتیجہ یا کمال تھا۔ پیپلز پارٹی کا آج یہ حال ہو گیا ہے کہ گذشتہ ضمنی الیکشن میں، بعد ازاں بلدیاتی الیکشن کے دوران مختلف مقامات پر انہیں اپنے امیدوار تک نہ مل سکے۔ اور جن امیدواروں نے مقابلہ کیا، اُن کی ضمانتیں تک ضبط ہو گئیں۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اس کا جو بھی نتیجہ نکالے لیکن نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعت کی ناکامی اُس کی لیڈرشپ کی ناکامی ہے جو حکومت سمیت ہر شعبے میں مایوس ترین کارکردگی کے ساتھ بُری طرح ناکام رہی۔ اُس نے سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی صورت میں جو دو وزراء اعظم بنائے، اُن پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے۔


یہ بدقسمتی ہی ہے کہ پیپلز پارٹی کا ستارہ زرداری صاحب کی کمان میں آنے کے بعد مسلسل گردش میں رہا۔ خود اُن پر مالی امور سے متعلق سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے۔ وہ کرپشن کے حوالے سے پہلے ہی بدنام تھے۔ مزید ایسے بدنام ہوئے کہ دو وزرائے اعظم سمیت اپنی پارٹی کو بھی لے ڈوبے۔اب پیپلز پارٹی کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ ’’سب کچھ اچھا ہو جائے گا‘‘ ۔ یہ خواب دکھانے والی بات ہے۔ پی پی پی والے بلاول کو لے آئیں یا کسی اور کوآزما لیں۔ نیا منشور دے دیں یا کوئی نئی بات کر لیں۔ پیپلز پارٹی یا پیپلز پارٹی کی سیاست پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے لیے سندھ کے مختلف اضلاع کے دورے کئے، تاہم یہ بات طے ہے کہ سندھ کا ووٹ صرف پیپلز پارٹی ہی کا ہے۔ لیکن پنجاب جو پیپلز پارٹی یا اُس کی قیادت سے ناراض نظر آتا ہے، کی حمایت حاصل کرنانیک شگون ہو گا۔ پنجاب کی حمایت کے بغیر پیپلز پارٹی آگے نہیں بڑھ سکتی اور نہ ہی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی میں جو دھڑے بندی ہے اور کرپشن کی جو نت نئی تہلکہ خیز کہانیاں سامنے آ رہی ہیں، اُس نے پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اُس پر بلاول بھٹو زرداری کو ضرور غور کرنا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے حق میں یہ بھی بہتر ہو گا کہ وہ آصف علی زرداری سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لے کیونکہ اُن پر ہی یہ الزام سب سے زیادہ عائد ہوتا ہے کہ انہوں نے پارٹی کو جتنا نقصان پہنچایا ہے ضیاء الحق بھی شاید اتنا نقصان اُسے نہیں پہنچا سکے۔ اگر پیپلز پارٹی نے بھٹو کی اس پارٹی کو زندہ رکھنا ہے تو بڑے سخت اور انتہائی اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔ سب کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اپنی ہی لیڈرشپ کی اپنی ہی غلط پالیسیوں نے آج پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت کو تباہی کے کس دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

مزید :

کالم -