’ توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے ‘

’ توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے ‘
 ’ توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے ‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک دیوار کی دوری ہے قفس


توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے


بدلتے موسموں کا آئینہ دیکھتے رہنے والے لوگ باقی صدیقی کا یہ شعر پڑھتے ہی اس منظر کی کیفیت میں ڈوب جاتے ہیں جس میں ایک نا مہرباں دیوار آنکھوں کے عین سامنے ان کے قفس کو چمن سے جدا کر رہی ہے ۔ اس کے برعکس سنجیدہ مزاج کے دانشور شعر کے علامتی مفہوم کی تہہ در تہہ سطحات کا کھوج لگانے بیٹھ جائیں گے ۔ پھر یہ سوال بھی ہے کہ اگر چمن ہماری اب تک کی نا آسودہ تمناؤں کا استعارہ ہے تو اس کا راستہ روکنے والی دیوار کو آیا ایک بیرونی حقیقت سمجھ لیا جائے یا اپنے ہی باطن کے منفی رجحانات کا اشارہ ۔ جی سی یونیورسٹی میں زبان و ادب کے استاد ڈاکٹر عبد الحمید خیال آج زندہ ہوتے تو ضرور کہتے ’یار ، کن چکروں میں پڑ گئے ؟ دیوار توڑنے کا مطلب ہے آپ کی شعوری کوشش جو واقعات کے تسلسل کو بدل کے رکھ دیتی ہے ، جیسے قائد اعظم پیدا ہو گئے تھے اور پاکستان بن گیا‘۔


ڈاکٹر خیال ایک تو تھے ہی منطقی آدمی ، دوسرے انہوں نے انگریزی اور اردو کے علاوہ کوئی نصف درجن مضامین میں ایم اے کر رکھا تھا ۔ یوں ان کے ہوتے ہوئے ، میں یہ بتانے کی جرات ہر گز نہ کرتا کہ سر ، مجھے باقی صدیقی کا شعر ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی اعلی تقرریوں میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی قابل قدر کارکردگی دیکھ کر یاد آیا ہے ۔ تو بھئی ، پبلک سروس کمیشن تو غیر جانبدار اور معتبر آئینی ادارہ ہے ، اس کا باقی مرحوم جیسے مست الست شاعر سے کیا تعلق ؟ میں کہوں گا کہ ہمارے معاشرہ میں جہاں عام شہریوں کو سرکاری شعبے سے کوئی کام قاعدہ قانون کے مطابق ہو جانے کی توقع نہیں ہوتی ، اگر سرکاری کالجوں کے گنے چنے لیکچرار اپنی علمی قابلیت اور تجربہ کی بنا پر براہ راست اسسٹنٹ پروفیسر بن گئے تو یہ واقعہ ان کے لئے چمن کے راستے میں حائل دیوار ٹوٹ جانے سے کم تو نہیں۔


انسانی زندگی کی کہانی کو سبب اور نتیجے کا تسلسل تصور کریں تو کسی بھی امتحان یا انٹرویو میں امیدوار کی کامیابی کا دارومدار اس کی اپنی استعداد عمل پہ ہوا کرتا ہے ۔ اس آزمائش میں انسانی غلطی کے امکان کا اثر کم کرنے کے لئے پبلک سروس کمیشن میں امیدواروں کا چناؤ کسی ایک شخص کے سپرد نہیں ہوتا ۔ تعلیمی اسناد اور دیگر دستاویزات کی مدد سے درخواست گزار کی اہلیت کا ابتدائی تعین دفتری اہلکار کرتے ہیں ، پھر تحریری امتحان اور آخری مرحلہ پر سیلیکشن بورڈ کے سامنے پیشی ۔ بورڈ کی صدارت پبلک سروس کمیشن کے چئیرمین یا ممبر کا کام ہے ، جن کی معاونت کے لئے متعلقہ شعبے کے سینئر اہلکار اور محکمانہ نمائندے موجود ہوتے ہیں ۔ جتنے بڑے عہدے کے لئے امیدواروں کا تقرر مقصود ہو ، اسی نسبت سے بورڈ کے اراکین کی سینیارٹی کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ تو قفس کی دیوار آخر ٹوٹتی کیسے ہے؟


حتمی موزونیت جانچنے کے لئے یہ حساب رکھنا ضروری ہو تا ہے کہ دیوار توڑنے کی کارروائی میں کس امیدوار کے تیشہ کی ضرب کتنی زوردار تھی ۔ میرے خفیہ ذرائع کے مطابق ، کمیشن کے بیشتر فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں ، ان معنوں میں کہ اگر بورڈ کے ہر رکن نے امیدوار کو بالکل ایک جتنے نمبر نہ بھی دئے ہوں تو سب کے عطا کردہ نمبروں کا انفرادی اتار چڑھاؤ معمولی تخفیف کے ساتھ کم و بیش ایک متفقہ دائرہ کے اندر رہتا ہے ۔ مطلب یہ کہ بورڈ کا کوئی رکن چاہے بھی تو وہ کسی امیدوار کی حمایت یا مخالفت میں عقل سلیم کی حدیں پار نہیں کر سکتا ۔ تو کیا چناؤ کا یہ سارا ڈھانچہ محض ایک میکانکی عمل ہے ، اور اگر نہیں تو بورڈ کے ارکان کی ذاتی پسند اور ناپسند کیا ہوئی ؟ مراد ہے ورلڈ ویو کی یکسانیت ، خاندانی یا سکونتی رشتے ، ایک ہی کالج کے اولڈ اسٹوڈنٹس یا اسی نوع کا کوئی اور تعلق ۔


جواب سیدھا سا ہے کہ میکانکی ڈھانچہ انصاف پر مبنی تو ہے ، مگر عملاً یہ ڈھانچہ انسانی تناظر کے اندر رہ کر کام کرتا ہے ۔ بورڈ کے ارکان اپنی عدل نوازی کی خواہش کے باوجود انسانی اوصاف اور احساسات سے عاری نہیں ہوتے ۔ اسی لئے تو پچھلے ہفتہ اردو کے مضمون میں اسسٹنٹ پروفیسر منتخب ہونے والے ایک لائق فائق لیکچرار نے مزے لے لے کر بتایا کہ ’میں نے تو ان سوالوں کے جواب بھی درست دئے تھے جن کی لفظیات چنتے ہوئے بورڈ کے ایک رکن بے یقینی کا شکار رہے ، مگر فیصلہ کن کردار بظاہر میری انگریزی بولنے کی صلاحیت نے ادا کیا ‘ ۔ میں یہ سن کر ایک لحظہ کو ٹھٹکا کہ ہو نہ ہو ، کوئی سینئر رکن ’او ایل کیو ‘ کو اہمیت دے رہا ہو گا ، مراد ہے افسرانہ صفات یا آفیسر لائیک کوالیٹیز ۔ پھر یاد آیا کہ انگریزی لیکچرار کے انٹرویو کے دوران اردو شاعری میں میری دلچسپی بھی کام دکھا گئی تھی ۔


لاہور میں پبلک سروس کمیشن کے روبرو اب سے چالیس سال پہلے میرے قفس کی دیوار ٹوٹنے کی داستان دلچسپ تو ہے لیکن سبق آموز نہیں ۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ انٹرویو کی صبح کوٹ پتلون کی بجائے جیکٹ اور جینز پہننے کی کیا ضرورت تھی ۔ پھر کمیشن کے سبز صوفوں سے آراستہ ویٹنگ روم کو چھوڑ کر عمارت کی چار فٹ اونچی بیرونی دیوار پر طویل انتظار کے دوران اطمینان سے مسلسل پائپ پینے کی حرکت ۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ان دنوں کلوز سرکٹ ٹی وی کا رواج نہیں تھا ۔ وگرنہ افسران بالا ’او ایل کیو‘ کی شدید کمی کو انٹرویو سے پہلے ہی نوٹ کر لیتے اور یوں یہ ہونہار امیدوار بن کھلے مرجھا جاتا ۔ آج کی جی سی یونیورسٹی میں میرے پرانے رفیق کار اور بعد ازاں محکمہ ء کسٹمز کے چیف کلکٹر عمر فاروق نے ایک مرتبہ چھیڑنے کے انداز میں کہا ’ اس دن مجھے پہلی نظر میں تم بہت شوہدے آدمی لگے تھے ‘ ۔


انگریزی کے لئے سات آٹھ امیدوار بھگتے ہوں گے کہ میری باری آگئی ۔ آغاز رسمی قسم کے سوالوں سے ہوا ۔ کہاں کہاں پڑھتے رہے ، آجکل کیا کرتے ہو ، تدریس میں دلچسپی کی وجہ ؟ میں نے سن رکھا تھا کہ جی سی اور پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ سبجیکٹ اسپشلسٹ کے طور پہ اپنے شاگردوں کے مقابلہ میں گورڈن کالج راولپنڈی کے فارغ التحصیل طلبہ کو ٹف ٹائم دیتے ہیں ۔ پنڈی وال امیدوار ہونے کے ناطے سے درخواست میں بحیثیت راوین ایم اے کے پہلے سال میں میری مشکوک کامیابی اور پھر نیو ہاسٹل سے فرار کا کوئی حوالہ نہیں تھا ۔ بورڈ کے اراکین کو دیکھ کر ڈر تو لگا کہ کہیں گورنمنٹ کالج کے اساتذہ پروفیسر خالد خان اور عبدالرؤف انجم مجھے پہچان نہ لیں ، مگر خالد خان تو تھے ہی درویش صفت انسان اور انجم صاحب کی کلاس میں ، ان کے حسن سلوک کے باوجود ، میری حاضریاں ہی دو تین تھیں۔



پنجاب یونیورسٹی سے آئی ہوئی سبجیکٹ اسپیشلسٹ متنازعہ مگر لائق صحافی زیڈ اے سلہری کی آئرش اہلیہ مسز ایس ایم سلہری تھیں ، جو بتدریج تیکھے سوال کرنے لگیں ۔ یہاں کام آیا میرا اس وقت تک جاری برطانوی سفارتخانہ کا تجربہ کہ تیزی سے ٹرن لیتی ہوئی بال کو انگریز لوگ ایشین بریڈ مین ظہیر عباس کی طرح بیک فٹ پہ آسانی سے کھیل جاتے ہیں ۔ یوں سمجھیں کہ ہٹ لگانے کے لئے اضافی نصف سیکنڈ مل گیا ، جس نے گیند کا ڈنگ بھی نکال دیا ۔ چنانچہ جب اپنے زمانے کے شاندار کرکٹر پروفیسر خالد خان نے یہ گوگلی پھینکی کہ شیلے کی شاعری اور نثر میں فرق بتاؤ تو میں نے پہلے تو مسکرا کر انہیں دیکھا ۔ پھر اطمینان سے شاعری اور نثر کی اصناف میں اختلافی نکات کی مجموعی نشاندہی کی اور اچانک یہ کہہ کر پروفیسر صاحب کو ہنسا بھی دیا کہ شیلے کی شاعری اور نثر کے درمیان بھی یہی فرق ہے ۔


پر جی ، یہ تو ٹیکنیکل معاملہ تھا ۔ د و ایک احتیاطیں اور بھی کیں ۔ جیسے جواب کا اوسط دورانیہ تیس سے چالیس سیکنڈ رکھا کہ اس سے کم ہو ا تو سلیکشن بورڈ کو جواب خالی خالی لگے گا جبکہ زیادہ طویل جواب بور کرسکتا ہے اور غلطی کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے ۔ آواز نہ اتنی اونچی کہ گستاخی لگے ، نہ اتنی مدھم کہ خود آپ کے سوا کوئی سن نہ سکے ۔ اس دوران مسکرانے کا انداز ایسا جسے خوامخواہ کی خود اعتمادی کا اظہار نہ سمجھ لیا جائے ، نہ یہ تاثر کہ آپ سیلکشن بورڈ کا پارٹ لگا رہے ہیں ۔ ویسے ایک آزمودہ نسخہ یہ مہذب چالاکی بھی ہے کہ ہر جواب کے بالکل آخر میں کوئی ایسی بات کہہ دیں جو آپ کے من پسند سوال کا پیش خیمہ بن جائے ۔ مثلاً ایک مرتبہ کہہ کر دیکھیں ’جیسا کہ ایشین اسٹائل ہاکی میں ہوتا ہے‘ ۔ اگلا سوال لامحالہ ہاکی پہ ہوگا ۔ کوئی جواب ’فلم‘ پہ ختم کریں تو فلموں کی بات شروع ۔


ملازمت کے انٹرویو کی طرف لوٹوں تو میری بیان کردہ حکمت عملی مشکوک ہوجائے گی ، کیونکہ میری محتاط مگر شگفتہ گفتگو کو بیس منٹ ہوئے ہوں گے کہ کمیشن کے چئیرمین نے پہلے تو مجھ پہ خوشدلانہ نظر ڈالی جیسے کہہ رہے ہوں کہ تشریف لے جائیے ۔ پھر پوچھ بیٹھے کہ آپ کا مشغلہ کیا ہے ۔ ’جی ، میں اردو میں شعر کہتا ہوں اور دو دوستوں کے ساتھ ایک منتخبہ مجموعہ شائع ہو چکا ہے جس کا فلیپ اوروں کے علاوہ فیض احمد فیض نے لکھا‘ ۔ اب جو اردو شاعری پہ بحث چھڑی تو پتا چلا کہ انگلش لیکچرار کے امیدوار نے بارھویں جماعت میں ’چمن زار غزل‘ توجہ سے پڑھی تھی ۔ اسی طرح ، پچھلے ہفتے میرے دوست نے اردو کے اسٹنٹ پروفیسر کا انٹرویو انگریزی کے زور پہ پاس کر لیا ہے ۔ دونوں صوبائی میرٹ میں دوسرے نمبر پر ۔ گویا قفس کی دیوار تو نہیں ٹوٹی مگر بہت کم خرچہ میں پنجرے کی چمن بندی ہو گئی: :



یاد غزال چشماں ، ذکر سمن عذاراں


جب چاہا کر لیا ہے کنج قفس بہاراں

مزید :

کالم -