تمام ادارے آئین کے اندررہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، عدلیہ مقدس گائے نہیں ،مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے : چیف جسٹس انور ظہیر جمالی
کوئٹہ(مانیٹرنگ ڈیسک )چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ معاملات ٹھیک رکھنے کےلئے تمام ادارے آئین کے اندررہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ، انتظامیہ اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو عدلیہ کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے،اداروں کو بہتر طریقے سے چلانا مشترکہ ذمہ داری ہے، لاپتہ افراد کے معاملے پر سپریم کورٹ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوگی، عدلیہ کو ایک مقدس گائے تصور نہیں کیا جاسکتا ، سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کرنے سے متعلق میرے بیان کی غلط تشریح کی گئی ، سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کرنے کا مطلب خود احتسابی کا عمل شروع کرنا ہے، ملک کے ہر شہری کا آئینی حق ہے کہ اس کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ پچھلے 68 سالوں میں ملک کو مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے ۔وہ اتوار کو بلوچستان بار کونسل کی طرف سے دیئے گئے عشائیہ سے خطاب کررہے تھے۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ مقدمات جلد نمٹانے کےلئے بار کو اہم کردار ادا کرنا ہے ،بلوچستان میں عدلیہ صحیح طریقے سے کام کررہی ہے یہاں کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں ۔بلوچستان ہائیکورٹ کے ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کےلئے اقدامات اٹھائیں گے۔انھوں نے کہاکہ ہر سٹیج پر خود احتسابی کی ضرورت ہے،معاملات ٹھیک رکھنے کےلئے ہر آئینی ادارہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرے ، سب سے زیادہ ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے، کوئی بھی شخص آئین و قانون سے بالا تر نہیں، آئین میں رہتے ہوئے کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے ۔ انہوں نے کہاکہ انتظامیہ اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو عدلیہ کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے، عدلیہ کو ایک مقدس گائے تصور نہیں کیا جاسکتا ، اداروں کو بہتر طریقے سے چلانا مشترکہ ذمہ داری ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ انصاف کا پورا نظام عدلیہ اور مستحکم بار پر منحصر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی امور ملازمت نہیں ، یہ وہ فرائض ہیں جو خدا ہر کسی کو نہیں سونپتا بلکہ خوش نصیبوں کو یہ ملتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان ملک کے تینوں ستونوں میں توازن قائم کرتا ہے ، احساس محرومی کے خاتمے کےلئے ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا ، احساس محرومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کرنے سے متعلق میرے بیان کی غلط تشریح کی گئی ، سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کرنے کا مطلب خود احتسابی کا عمل شروع کرنا ہے ۔ ملک کے ہر شہری کا آئینی حق ہے کہ اس کے حقوق کا تحفظ کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر سپریم کورٹ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوگی ، ہر شہری کی آزادی کا مکمل تحفظ ہونا چاہیے ۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ معاملات ٹھیک کرنے کیلئے ہر آئینی ادارہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔جب انتظامیہ اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو عدلیہ کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ68سال میں ملک کو مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے ہرادارہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے سب سے زیادہ ذمہ داری عدلیہ پر عائدہوتی ہے۔