کراچی امن و ترقی کی راہ پر
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور بلا کسی امتیاز و تفریق کے ہر فرد کو ایک بے لوث ماں بن کر اپنی آغوش میں چھپا لیتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ملک کی واحد بندرگاہ کے حامل شہر کراچی نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے مچھیروں کی چھوٹی سے بستی روشنیوں کا شہر بن کر دنیا کے نقشے پر ابھری۔ روزگار کے بہتر مواقع کے باعث نہ صرف ملک کے دیگر حصوں، بلکہ دیگر ممالک مثلاً سری لنکا، فلپائن،ایران، برما اور بعض افریقی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی بڑی تعداد میں کراچی کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ ہر زبان، رنگ و نسل، مذہب و فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص یہاں آباد ہے، اور ہمارا کراچی ہر شخص کی روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے۔
پھر نہ جانے اس شہر بے مثال کو کس کی نظر لگ گئی۔ کراچی میں خوف وہراس نے ڈیرے ڈال لیے۔ روشنیوں کا شہر تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔ شہر کی جو سڑکیں لوگوں کے لئے کبھی تفریح کا سامان ہوتی تھیں ، قتل گاہوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔
جہاں دوسرے شہروں سے آنے والے لوگ ہر ماہ گھر والوں کو پیسے بھیجتے تھے ، اب وہاں سے لاشیں گھروں کو واپس جانے لگیں۔
لیکن ظلم کی اس تاریک رات کو آخر ختم ہونا تھا سو فوج، رینجرز اور پولیس جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مل کر ظلم کی سیاہ رات کو ختم کیا اور امن کا سورج ایک بار پھر طلوع ہو گیا۔ آج کا کراچی بھلے 90کی دہائی سے پہلے والا کراچی نہ سہی لیکن پچھلے دو تین سال سے یہاں کے حالات گزشتہ دو تین دہائیوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہو گئے ہیں۔
آبادی کے بڑھتے دباؤ اور سابق حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی کے باعث جہاں ملک بھر میں اسلحے کی فراوانی کی وجہ سے دہشت گردی جیسے سنگین مسائل پیداہوئے، وہیں افغان جنگ کے منفی اثرات نے بھی نہ صرف کراچی میں آباد لوگوں، بلکہ یہاں آنے والوں کو بھی جرائم کی راہ پر گامزن کیا۔ رہی سہی کسر غربت اور بے روزگاری کے اضافے نے پوری کر دی۔
مسائل میں گھرے کراچی میں نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دن میں سو سے زائد موبائل چھن جانا، کاریں اور موٹر سائیکلیں چھننا اور چوری ہونا ایک معمول بن گیا۔کراچی میں امن و امان کی خراب صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہر میں ٹریفک جام کے دوران بھی سڑکوں پر مسلح لٹیرے دندناتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں کر کے رفو چکر ہو جاتے ۔ جرائم پیشہ عناصر کے سیاسی اثر و رسوخ کے باعث پولیس انہیں گرفتار کرنے میں بے بس نظر آتی۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے کراچی کے حالات کچھ ایسے رہے کہ کراچی کے بارے میں دنیا میں تاثر عام ہوگیا کہ یہ شہر مکمل طور پر امن و امان سے عاری ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہاں یہاں پر سماج دشمن عناصر موجود ہیں، لیکن کراچی کے لوگ عمومی طور پر امن کے خواہاں اور امن پسند ہیں۔
موجودہ حکومت نے عنان مملکت سنبھالتے ہی جہاں پہلے بڑی بڑی خرابیوں پر ابتدائی دنوں میں اپنی توجہ مرکوز رکھی وہاں کراچی کے امن کے لئے بھی یہ شہر کسی بڑی کارروائی کا متقاضی تھا۔ سابق وزیر اعظم کے دورہ کراچی کے دوران یہ طے پایا کہ خفیہ ایجنسیوں کی نشاندہی پر رینجرز متعلقہ علاقوں میں ٹارگٹ آپریشن کرے گی، تاہم یہ لازم ہے کہ جن عناصرکو بھی گرفتار کیا جائے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں اور متعلقہ عدالت کو کم سے کم معینہ مدت میں فیصلے کے لئے کہا جائے۔
کراچی میں ستمبر 2013ء میں رینجرز کی قیادت میں آپریشن شروع کیا گیا تھا۔اس وقت شہر میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں، اہدافی قتل اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عروج پر تھیں۔
آپریشن کے آغاز کے وقت تمام دہشت گرد گروپ شہر میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہے تھے۔وہ تخریبی سرگرمیوں اور حملوں کے لئے ایک پول سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو استعمال کررہے تھے۔ان میں سے سینکڑوں سخت گیر دہشت گردوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے،جن میں سے بیسیوں دہشت گردوں کے سروں کی قیمت مقرر تھی۔ اس آپریشن کے نتیجے میں کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ۔
کراچی میں آپریشن کے نتیجے میں اہدافی قتل کے واقعات میں ستر فی صد ، بھتا خوری کے واقعات میں پچاسی فی صد اور اغوا برائے تاوان کے کیسوں میں نوّے فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان رینجرز کراچی کے امن میں مرکزی کردار ہیں۔ کراچی آپریشن کی تکمیل کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان رینجرز سندھ ایک نہایت جری اور قابل ستائش فورس کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ اس فورس کی کامیابیوں کا سہرا اس کے افسران، عہدیداروں اور جوانوں کے سر ہے۔ پاکستان رینجرز صوبے کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کرتی رہے گی۔
کراچی آپریشن مکمل طور پر غیر سیاسی، بلا امتیاز، ہر طرح کی مصلحت اور دباؤ سے آزاد ہے۔ اسے کامیاب اور پائیدار بنانے کے لئے ہمیں مل جل کر اور بھی کام کرنا ہوگا۔کراچی آپریشن کے اہداف رفتار کی قید سے آزاد ہیں۔
کراچی آپریشن بلا تخصیص جاری رہنا چاہیے جب تک آخری دہشت گرد، بھتہ خور ، ٹارگٹ کلر نہ مارا جائے۔ چاہے وہ کسی بھی سیاسی، مذہبی یا لسانی جماعت سے تعلق رکھتا ہو۔ کوئی مصلحت آڑے نہیں آنی چاہیے۔ ہم نے اگر کراچی بچانا ہے تو ہمیں یہ کچھ کرنا پڑے گا۔
دوسری بات یہ کہ اب تک گرفتار ہونے والے افراد کو فوری طورپر سزائیں دی جائیں ۔ ان کے کیس کو التوا میں نہ ڈالا جائے۔ جو جرم انہوں نے کیا قانو ن کے مطابق ان کی سزا فوری طور پر دی جائے، تاکہ عوام کو اس بات پر اطمینان ہو کہ حکومت واقعی کراچی میں قیام امن کے لئے سنجیدہ ہے۔
کراچی آپریشن کو اس مرحلے پر ختم کرنا یا اس میں تبدیلیاں کرنا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔رینجرز اور پولیس کے مابین بہتر کوآرڈینیشن برقرار رہے اور امن و امان کے حوالے سے بہتر نتائج حاصل ہو سکیں۔ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے عہدیداران بھی حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے کراچی آپریشن کو کامیاب بنانے میں مدد کریں ۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی میں مکمل قیام امن کے لئے وفاق ،صوبائی حکومت کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کو تعاون کرنا ہو گا۔ کراچی میں قیام امن کے حوالے سے وفاقی حکومت کی پالیسی برقرار رہے گی۔
کراچی ملک کا معاشی حب ہے۔ کراچی میں بحالی امن کے لئے سکیورٹی اداروں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہم ان قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
کراچی میں مستقل امن کا قیام اور ترقی وفاقی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ شہر قائد میں مستقل امن کے قیام اور ترقی کے لئے تمام سیاسی قوتوں کو متحد ہو کر حکومت کا ساتھ دینا ہو گا۔ وفاقی حکومت کراچی میں ہر صورت قیام امن کو یقینی بنائے گی اور شہر میں جرائم کے خاتمے کے لئے آپریشن کو جاری رکھا جائے گا۔ کراچی ملک کی معاشی شہ رگ ہے، جس کی ترقی وخوشحالی کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہو تے ہیں ،کراچی میں دیر پاامن و امان کے لئے ہرممکن اقدامات کئے جارہے ہیں۔