کوئی مدمقابل نہیں دور تک

کوئی مدمقابل نہیں دور تک
 کوئی مدمقابل نہیں دور تک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قومی اسمبلی سے اپوزیشن کی شکست فاش اس بات کا ثبوت ہے کہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت سے پاکستانی سیاست میں پیدا ہونے والا خلاابھی باقی ہے ، عمران خان ، بلاول بھٹواور آصف زرداری میں سے کوئی بھی اس خلا کو پر نہیں کر سکا ہے ، نواز شریف کا مدمقابل کوئی نہیں ہے، نون لیگ کو توڑنے والے، نون لیگ کو ڈکٹیٹ کرنے والے بھی اس سوال کا جواب نہیں دے پارہے ہیں کہ نواز شریف کو مائنس کیاگیا تو عوامی ردعمل کو کیسے سنبھالا جائے گا، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر سندھ میں پاکستان نہ کھپے کا نعرہ لگا تھا، نواز شریف کو مائنس کیا گیا تو کیا نعرہ لگے گا؟ ....وزیر اعظم آزاد کشمیر جو کچھ کہہ چکے ہیں اس تھوڑے کو بہت سمجھنا چاہئے !


لیڈرشپ بنائی نہیں جاتی ،پیدا ہوتی ہے ۔ نواز شریف کو ضیاء الحق نہیں میاں محمد شریف سیاست میں لے کر آئے تھے اور اس کے پیچھے ان کے کاروبار کو بھٹو کے ہاتھوں پہنچنے والی وہ زک تھی جس نے ان کی ساری محنت کو اکارت کردیاتھا اور انہیں ملک بدر ہونا پڑا تھا۔ باپ کا یہ دکھ نواز شریف نے یقیناًدیکھا اور محسوس کیا ہوگا ، وہ سیاست میں ایک Cause of Actionیعنی بنائے دعویٰ کے ساتھ داخل ہوئے تھے ، یہ تو ان کی خوش بختی تھی کہ ضیاء الحق کو بھا گئے وگرنہ وہ ان کے منظور نظر نہ بھی ہوتے تو بھی وہ یہ مقام ضرور حاصل کرتے کیونکہ وہ بھٹو کی فسطائیت کے خلاف سیاست میں آئے تھے اور ملک میں کاروباری برادری کے حقوق کے تحفظ کاایجنڈا رکھتے تھے جو آج عوام کے حق حاکمیت کی پاسداری میں بدل چکا ہے۔


کاروباری برادری کے حقوق کے تحفظ سے راقم کو یاد آیا کہ ایک مرتبہ سمن آباد کے تھانے کی نفری راقم کے قریبی عزیز کو اس کی دکان سے مہنگا آٹا فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے لے گئی،اس پر پوری مارکیٹ کے دکاندار اکٹھے ہو کر تھانے چلے گئے ۔ اس اثناء میں راقم کو بھی فون کیا گیا چنانچہ راقم بھی تھانے پہنچا اور تھانیدار سے ملنے اس کے کمرے میں چلا گیا ۔ تھانیدار صاحب کمرے میں موجو نہیں تھے ، معلوم ہوا کہ پچھلے کمرے میں آرام فرما رہے ہیں چنانچہ محرر کے ذریعے اپنا وزٹنگ کارڈ بھیجا ، تھانیدار صاحب پھر بھی نہ آئے تو راقم اس کمرے کی طرف چل پڑا جہاں وہ محو استراحت تھے ۔ محرر نے فوراً کہا کہ آپ بیٹھیں میں بلاتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد تھانیدار صاحب آئے تو راقم نے سیدھا سوال کیا کہ اس کے قریبی عزیز کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیسے کیا گیا ہے ۔ اس پر تھانیدار بولا کہ آپ سخت لہجے میں کیوں بول رہے ہیں


تو راقم نے برجستہ کہا کہ میں ہی آپ سے سخت لہجے میں بول سکتا ہوں وگرنہ دکانداروں کا یہ ہجوم مل کر بھی آپ کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں رکھتا ۔ تھانیدار صاحب نے صورت حال بگڑتی دیکھی تو گرفتار نوجوان کو شخصی ضمانت پر رہا کردیا۔ راقم تھانے سے باہر نکلا تو بوڑھے دکانداروں کاہجوم راقم کا کندھا تھپتھپاتے اور ماتھا چومتے تھک نہیں رہا تھا کہ کوئی تو ہے جو تھانیدار سے سخت لہجے میں بات کرسکتا ہے ، یہ ہے ہمارے ہاں کاروباری برادری کی حیثیت کہ ان کی لاکھوں کروڑوں کی دولت بھی ایک تھانیدار کے غیر قانونی فعل کا راستہ نہیں روک سکتی۔


اس تناظر میں اگر میاں محمد شریف نے نواز شریف کو سیاست کے لئے مختص کیا تو اس کے اسباب بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔ ایک سینئر مزاح نگار نے ایک مرتبہ راقم کو بتایا کہ وہ میاں محمد شریف سے ملنے ان کے دفتر گئے تو وہاں دیوار پر جنرل ضیاء الحق کی تصویر لٹک رہی تھی ، گویا جنرل ضیاء الحق میاں محمد شریف کی ضرورت تھے تو جنرل ضیاء الحق کی ضرورت نواز شریف ٹھہرے اور جونہی نواز شریف کو موقع ملا انہوں نے اپنا اصل رنگ دکھایا اور لڑائی کا رخ بھٹو جیسے سیاستدان سے بدل کر اسٹیبلشمنٹ کی طرف کر لیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نواز شریف نے جب اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول لی تو اس کے نمائندے کے طور پر مرحوم صدر غلام اسحٰق خان اقتدار پر براجمان تھے ۔


توڑ پھوڑ کی جاتی ہے اور ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے ، آج نون لیگ میں تقسیم کی امید دیگر جماعتوں کو متحد رکھے ہوئے ہے ، اگر نون لیگ متحد رہی تو دیگر پارٹیاں تقسیم ہو جائیں گی۔ نو ن لیگ کے گرداگرد سیاست گھوم رہی ہے لیکن یہ گرداگرد دراصل نون لیگ کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوشش ہے ، نون لیگ میں شگاف ہے تو نظر کیوں نہیں آرہا ہے ، نواز شریف پیچھے ہٹ گئے تو نون لیگ تتر بتر ہو جائے گی ۔ نون لیگ صرف اس لئے نون لیگ ہے کہ نواز شریف ابھی ہمت نہیں ہارے ہیں، جس دن وہ ہمت ہا رگئے تو اے این پی کی طرح یہ جماعت بھی ماں اور بیٹے میں تقسیم ہو جائے گی۔ اپوزیشن کوئی گیم بنا نہیں پا رہی ہے اور اس کام کے لئے نادیدہ قوتوں کی طرف دیکھ رہی ہیں ، نون لیگ عوام کی جانب دیکھ رہی ہے ۔ یہ نادیدہ قوتوں کا عوامی قوت سے مقابلہ ہے۔ اس مقابلے میں عوام جیتیں گے۔


نواز شریف کی عوامی رابطہ مہم شروع ہو چکی ہے ، ان کے ساتھ محمود اچکزئی کھڑے ہوگئے ہیں، بزنجو بھی ساتھ ہیں، اے این پی ساتھ ہے ، پیپلز پارٹی بھی تحریک انصاف کے مقابلے میں نون لیگ کو ترجیح دے گی۔ متحدہ نے اسٹیبلشمنٹ کو مزاحمت دی ہے ، اگر ایسا ہوتا رہا تو ممکن ہے وہ بھی نون لیگ کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ نون لیگ کا مقابلہ اپوزیشن سے اتنا ہی ہے جتنا اسٹیبلشمنٹ کا نون لیگ سے ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر نون لیگ کو شکست نہ دے سکی تو وہ بھی اس کو جیت لے گی،دشمنی نہ نبھا سکی تو دوستی کرلے گی کیونکہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت سے پیدا ہونے والا خلا ابھی پر نہیں ہوا ہے اور نواز شریف کا مدمقابل فی الحال کوئی نہیں !


مزید :

کالم -