’ادب کی شمع بجھ گئی‘معروف ترقی پسند شاعرہ ،نامور مصنفہ فہمیدہ ریاض طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن ) ممتاز شاعرہ و مصنفہ اور جمہوری جدوجہد کے حوالے سے نمایاں مقام بنانے والی فہمیدہ ریاض طویل علالت کے بعد 72 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئیں،وہ بہتریں فکشن نگار اور مترجم بھی تھیں جبکہ حکومت کی طرف سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا ۔
تفصیلات کے مطابق صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز حاصل کرنے والی ملک کی معروف شاعرہ ، ادیبہ اور ملک میں جمہوریت اور خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی فہمیدہ ریاض طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال کر گئیں ،وہ گذشتہ چند ماہ سے بیمار تھیں۔فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ ہندوستان کے علمی ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں، اُن کے والد ریاض الدین احمد ماہرِ تعلیم تھے،تقسیم کے بعد اُن کا خاندان حیدر آباد سندھ میں قیام پذیر ہوا،فہمیدہ نے بچپن میں سندھی زبان سیکھی اور سندھی ادب کا مطالعہ بھی کیا، فہمیدہ ریاض نے زمانہ طالب علمی میں پندرہ سال کی عمر اپنی پہلی نظم لکھی جو احمد ندیم قاسمی کے رسالے ’’ فنون‘‘ میں شائع ہوئی۔فہمیدہ زمانہ طالبعلمی سے طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں،ایوب خان کے زمانے میں طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف لکھتی رہیں جبکہ جنرل ضیاالحق کے دور میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے جرم میں ان پر 14مقدمات قائم ہوئے۔صدر ضیاءالحق نے ان کو جبری جلاوطن کر دیا تو بھارت چلی گئیں اور پھر جنرل ضیا الحق کے انتقال کے بعد ہی پاکستان واپس آئیں۔22 سال کی عمر میں فہمیدہ ریاض کا پہلا شعری مجموعہ ”پتھر کی زبان“ 1967 میں شائع ہوا ، ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ 1973 میں ان کی شادی کے بعد انگلینڈ کے زمانہ قیام میں شائع ہوا جب کہ تیسرا مجموعہ ’کلام دھوپ‘ تھا۔فہمیدہ ریاض نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کی سربراہ بھی رہیں، وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھارت چلی گئیں اور ضیا الحق کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئیں۔ فہمیدہ ریاض نے جمہوریت اور خواتین کے حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد کی۔فہمیدہ کی شاعری میں مشرقی عورت کی مجبوریاں بھی نظر آتی ہیں اور بیسویں صدی کی عورت کی روایات سے آزاد اور خود مختار ہونے کی خواہش بھی۔ اُن کا خواب ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں عورت اور مرد کو برابری مل سکے ،جہاں عورت دوسرے درجے کی محکوم نہ ہو ۔انہوں نے معروف سندھی شاعر شیخ ایاز کے کلام کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اور اس کے علاوہ مثنوی مولانا روم کا بھی ترجمہ کیا ۔فہمیدہ ریاض کو 2017 میں ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ہیمت ہیلمن ایوارڈ برائے ادب، 2005 میں المفتاح ایوارڈ برائے ادب و شاعری اور شیخ ایاز ایوارڈ بھی دیا گیا۔