نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
کورونا سے جلسے نہیں رکیں گے اور جلسوں سے حکومت نہیں جائے گی لیکن کورونا اور جلسے مل کر اسٹیبلشمنٹ کے پاؤں ضرور اکھاڑ سکتے ہیں۔ اسی لئے اپوزیشن، بالخصوص مسلم لیگ (ن) پر پابندی کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ کورونا ایس اوپیز کے نام پر پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں پر پابندی کے نام پر علیحدہ سے پکڑ دھکڑ کے انتظامات کئے جا رہے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں سے گھبراگئی ہے اور اب اپوزیشن کو مزید جلسوں کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں، حالانکہ خود عمران خان جلسے جلوسوں اور حکومت پر الزامات لگانے کو اپوزیشن کا حق بتایا کرتے تھے۔
یہ بات بھی اب پرانی ہوگئی ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں نواز شریف کے بیانیہ کو شکست ہو گئی ہے، کیونکہ ایسا ہوا ہوتا تو حکومت کو پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں پر پابندی نہ لگانا پڑتی اور دل کھول اجازت دے رہی ہوتی کہ لوگ کون سا نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اب تو شیخ رشید بھی مسلم لیگ (ن) سے شین لیگ برآمد کرنے کا ٹوپی ڈرامہ بند کرکے بند گلی کی جگالی کئے جا رہے ہیں اور ڈائیلاگ کی نوید سنا رہے ہیں، بس ان کاا صرار ہے کہ حکومت کو بھی ڈائیلاگ کا حصہ بنایا جائے، جبکہ اپوزیشن سرے سے حکومت کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پشاور کے جلسے میں نواز شریف ناموں سے آگے بڑھتے دکھائی دیں گے اور پی ڈی ایم اپنے مطالبات کو اگلے لیول پر لے جائے گی۔ وہ کورونا انجینئرنگ سے دبنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس لئے جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ میں نرمی پیدا ہوجائے گی، وہ شائد غلطی پر ہیں۔ ابھی تو اسلام آباد کی طرف مارچ بھی ہونا ہے اور مخالفین ابھی سے ماننے لگے ہیں کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں جان پڑ چکی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب پی ڈی ایم حکومت کے گلے پڑرہی ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب نواز شریف ملک سے باہر گئے تھے تب پی ڈی ایم کا کوئی وجود نہ تھا لیکن اپنے قیام کے مختصر سے عرصے میں پی ڈی ایم نے اپنی سیاسی جگہ بنالی ہے۔ خاص طور پر گلگت بلتستان میں جس طرح حکومت کو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اور سارا انتخاب ہی آزاد امیدواروں کے مرہون منت ہوچکا ہے جبکہ حکومتی پارٹی کو سادہ اکثریت بھی نہیں مل سکی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو اور مریم نواز کا جادو عوام کے سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔
پی ڈی ایم کا آج پشاور سے دوسرا راؤنڈ شروع ہونے کو ہے۔ اس پلیٹ فارم پر اکٹھی ہونے والی جماعتوں کے کارکن کورونا کے حوالے سے حکومتی پابندیوں کو ہوا میں اڑا دیں گے، جس سے عوام میں حکومتی رٹ کا تاثر مزید کمزور پڑ جائے گا۔ حکومت کورونا کے کندھوں پر رکھ کر جو بندوق چلانا چاہتی ہے اس میں سوائے پھوکے فائروں کے کچھ برآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا،کیونکہ حکومت نہ تو کاروبار بند کرنا چاہتی ہے نہ کاروبار زندگی، اگر بند کرنا چاہتی ہے تو اپوزیشن کے جلسوں کو بند کرنا چاہتی ہے، نواز شریف نے ”ووٹ کو عزت دو“کا بیانیہ گھڑا ہے تو حکومت کورونا کا بیانیہ گھڑ کرمیدان میں کود پڑی ہے، اس کی خواہش ہے کہ کورونا کا پراپیگنڈہ اس حد تک کیا جائے کہ اپوزیشن قیادت باز آئے نہ آئے، عوام ان کے جلسوں میں جانے سے ضرور باز آجائیں۔ کیا ایسا ممکن ہوگا؟ کیا کورونا کا پراپیگنڈہ حکومت کو بچالے گا؟ کیا جلسوں سے حکومت چلی جائے گی؟ اگر یہ دونوں کام نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟ کیا حکومت اور اپوزیشن اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گی؟
حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کے جلسوں سے کورونا پھیلتا ہے تو بھی اسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا ئے گا اور اگر کورونا نہیں پھیلتا تو جلسے جلوسوں سے بالآخر حکومت دباؤ میں آجائے گی اور اس کی پوزیشن خستہ ہو جائے گی۔ یہ بات پی ڈی ایم کی قیادت کو خوب اچھی طرح معلو م ہے، اس لئے وہ ہر حال میں حکومت کے خلاف اپنی مہم کو جاری رکھنا چاہتی ہے، دوسری جانب بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا احتمال بھی بڑھتا جا رہا ہے، جبکہ پرائیویٹ سکول بچوں کی فیسوں کے حوالے سے والدین پر علیحدہ سے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس مہنگائی کے عالم میں بغیر سکولوں میں حاضری کے بچوں کی فیس لوگوں کو بہت دکھ رہی ہے اور وہ اس کا ذمہ دار بھی حکومت کو قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی حکومت سے ناراضی بڑھتی جا رہی ہے اور لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کے لئے عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
حکومت کے لئے تسلی کی اگر کوئی بات ہے تو وہ یہ ہے کہ میڈیا، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا، کا ایک بڑا حصہ ابھی تک اس کا بھونپو بنا ہوا ہے اور پی ڈی ایم کی قیادت اور جلسے جلوسوں کو اس طرح سے لفٹ نہیں کرا رہا ہے، جس طرح کبھی عمران خان اور ان کے حواریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا تھا۔ جس دن میڈیا کو آزادی مل گئی اور ٹی وی چینلوں نے پی ڈی ایم کے جلسوں او ر قیادت کی بھرپور کوریج شروع کردی، اس دن حکومت کے بقیہ دنوں کی گنتی شروع ہو جائے گی۔ حال ہی میں ہیومن رائٹس کمیشن اور چند صحافیوں کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئین کے آرٹیکل 19اور 19Aکی تشریح کے لئے رجوع کرلیا گیا ہے اور پوچھا جارہا ہے کہ پیمرا کس طرح آزادیئ اظہار پر پابندی کا سامان کرسکتا ہے؟
پس تحریر:علامہ خادم حسین رضوی کی اچانک موت سے ہرکوئی چونک گیاہے۔ ملک بھر میں ان کے جنازے کی تعداد کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں۔ اس سے ہمیں مرحوم جنرل ضیاء الحق کے جنازے کے مناظر یاد آگئے۔ وکی پیڈیا میں درج ہے کہ ان کے جنازے میں 30ممالک کے سربراہان مملکت نے شرکت کی تھی، جن میں بنگلہ دیش، چین، مصر، ایران، بھارت، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان مملکت شامل تھے۔ وکی پیڈیا کے مطابق 10لاکھ افراد نے جنرل ضیاء الحق کے جنازے میں شرکت کی تھی۔ ان کے جنازے کے بعد علامہ خادم حسین رضوی دوسری ایسی شخصیت ہیں جن کے جنازے میں اتنی کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ علامہ خادم حسین رضوی نے بہت کم عرصے میں مقبولیت حاصل کی تھی، خاص طور پر ان کا نعرہ ”لببیک لببیک یارسول اللہ“تو ان سے بھی زیادہ مقبول ہو چکا ہے۔ ان کے بعد تحریک لببیک پاکستان کی سیاسی مقبولیت کس سطح پر رہے گی، اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا، لیکن ایک بات طے ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی طرح علامہ خادم حسین رضوی بھی ملک بھر کے مذہبی حلقوں کی محبوب شخصیت ثابت ہوئے تھے لیکن پھر چشم فلک نے دیکھا کہ جنرل ضیاء الحق کے لاکھوں کے جنازے کو جناب اعجاز الحق ایک سیاسی قوت میں بدلنے میں ناکام رہے تھے۔ لوگوں نے مذہب کو سیاست سے خلط ملط نہیں کیا تھا۔ کیا ٹی ایل پی کو بھی ایسے ہی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اس کا جواب مستقبل میں پوشیدہ ہے اور بہتر ہے کہ آئندہ کا انتظار کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب!