فیض: آج تم یاد بے حساب آئے (2)
فیض احمد فیض کی چھتیسویں برسی پہ نومبر 1984 ء کا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے۔ اُس صبح فیض کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے مَیں روزنامہ پاکستان ٹائمز لاہور کے ایک پریس ورکر سے باتیں کر رہا تھا۔ ایک راہگیر نے پوچھا ”کہدی گل پے کردے نیں؟‘‘ ورکر نے جواب دیا ’’فیض احمد فیض دی۔“ ”اوہ کون سن؟“ ”اوہ۔۔۔ اوہ اِک دانا آدمی سی،“ کارکن نے ’دانا‘ کی ’نا‘ کو لمبا کھینچتے ہوئے کہا۔ اُس روز ایک بظاہر کم پڑھے لکھے انسان کی زبان سے ’دانا آدمی‘ کی ترکیب سُن کر مجھے احساس ہوا کہ ہر پڑھا لکھا یا ڈگری یافتہ شخص دانا نہیں ہوا کرتا۔ اسی طرح چند سال پہلے فیض کی صد سالہ تقریبِ ولادت پہ خیال آیا تھا کہ ’شامِ شہرِ یاراں‘ کے تعارف میں اشفاق احمد نے اُنہیں ایک ایسا ملامتی صوفی کہا جو صبر اور بردباری کا مسلک اپناتا ہے اور احتجاج کیے بغیر پتھر بھی کھا لیتا ہے۔
اگر فیض پہ ہونے والی سنگ زنی کا حساب لگانے بیٹھیں تو سب سے پہلے ذہن 1950ء کی دہائی میں راولپنڈی سازش کیس کی طرف جائے گا کہ پراسیکیوٹر عدالتی ٹربیونل کے روبرو فیض اور اُن کے رفقائے جرمِ عشق کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کرتا اور پھر گھر جا کر سر پیٹتا کہ یہ مر گیا تو ایسا شاعر کہاں سے لاؤں گا۔ تو آخر فیض کی دانائی کو کسِ زمرے میں شمار کیا جائے؟ انیسویں صدی کی انگریزی رومانیت کو اردو کے سانچے میں ڈھال کر اسلوب اور ہیئت کے نئے تجربات کرنے والا شاعر، جرات مند صحافی یا ایک ادبی پِیر جس کے پردہ کرتے ہی اُس کی ڈھیری پہ ماڈرن مجاوروں نے قبضہ کر لیا ہے؟ بڑے آدمیوں کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اُن کی شخصیت دُور سے ایک تجریدی حقیقت دکھائی دیتی ہے۔ گویا وہ گوشت پوست کے آدمی نہ ہوئے، بس ایک نظریہ یا نعرہ ہوئے۔
گوشت پوست کے فیض احمدفیض پر ’جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو‘ کا حساب کرنے نکلیں تو یہ ندامت بھی دامن گیر ہوگی کہ اُنہیں داغ داغ کرنے والے تمام پتھر ’صف ِ دشمناں‘ کی توپوں نے نہیں برسائے تھے۔ اِس سنگ باری میں کبھی کبھا ر کسی نہ کسی ’چارہ گر‘ کی غلیل بھی استعمال ہوئی۔ یہ اعتراف بھی ہے کہ فیض کے خلاف ایک ’راولپنڈی سازش کیس‘ ہماری طالب علمی کے زمانے میں خود میرے ایما پہ ہوا، مگر یہ روئداد ذرا آگے چل کر۔ فی الوقت اتنا ذاتی حوالہ کافی ہے کہ فیض احمد فیض نامی شاعر اور انسان سے میری ابتدائی شناسائی ایک ہی وقت میں ہوئی۔ اپنے دَور کے مشہور ناول ’ہاؤ گرِین واز مائی ویلی‘ کے ہیرو کا کہنا ہے کہ اُسے پانچ برس کی عمر میں بڑے بھائی کی پچیس سالہ بیوی سے عشق ہو گیا تھا۔ اپنا حال یہ کہ 1960 ء میں ابھی زندگی کے آٹھویں برس میں تھے کہ ایک ماہانہ رسالے میں ایک تعارفی مضمون کا عنوان پڑھ کر فیض صاحب کو دل دے بیٹھے۔
مضمون کا عنوان ابھی تک یاد ہے: ’فیض جس کی آنکھ قطرے میں دجلہ دیکھتی ہے‘۔ مضمون میں شاعر کی مختصر سوانح تھی اور نمونہء کلام۔ دجلہ کے معنی مجھے معلوم نہیں تھے، جو والد سے پوچھ کر پتا چلا کہ بہت بڑا دریا ہے۔ اِس موقع پر والد نے دوباتیں اور بتائیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے فیض کی پہلی کتاب ’نقشِ فریادی‘ اول اول کشمیری محلہ سیالکوٹ والے دوست الطاف سے لے کر پڑھی تھی۔ دوسرے، فیض احمد فیض کو اِس لیے جیل بھیج دیا گیا تھا کہ فیض اور کچھ فوجی افسر جموں و کشمیر میں جنگ بندی کے خلاف تھے۔ یہ دوسری بات جو ادھوری سی تھی اُس وقت کچھ سمجھ میں آئی، کچھ نہیں آئی۔ مگر مَیں تو یہ سوچ سوچ کر مزا لیتا رہا کہ اِ س آدمی کو پانی کی بوند میں پورا دریا نظر آ جاتا ہے۔ قطرے میں دجلہ۔ یا اللہ، یہ کس قسم کا آدمی ہے۔
کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ ہمارے واہ کینٹ کے گلی بازاروں میں کئی نمایاں جگہوں پہ ایک آل پاکستان مشاعرہ کے بڑے بڑے اشتہار چسپاں ہو گئے۔ پہلا اشتہار لوسر باؤلی کے بس اسٹاپ پر ابا نے دیکھا تھا۔ گھر آتے ہی جوش کے عالم میں بتانے لگے کہ فیض احمد فیض آنے والے ہیں، مشاعرہ سی ایم ہائی اسکول (موجودہ ایف جی ماڈل اسکول) میں ہو گا۔ کہنا تو چاہیے تھا کہ ملک کے سبھی معروف شعرا آنے والے ہیں، جن میں فیض احمد فیض بھی شامل ہوں گے۔ پر جی، نام صرف فیض صاحب ہی کا لیا گیا، جس کے کئی امکانی اسباب تھے۔ سب سے پہلے علامہ اقبال، پیر جماعت علی شاہ اور گونگا پہلوان کی طرح ہمارے ساتھ جنابِ فیض کا سیالکوٹی کنکشن۔ پھر ’پاکستان ٹائمز‘ کی ادارت بلکہ چیف ایڈیٹری، تیسرے راولپنڈی سازش کیس کی ابتدائی قیدِ تنہائی کے دوران ’متاعِ لوح و قلم‘ چھن جانے کی کہانیوں کا رومانس، جس پہ شاعر کو کہنا پڑا تھا کہ ’خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں مَیں نے‘۔
یہ سارے اندازے صحیح ہو سکتے ہیں، مگر اب مجھے لگتا ہے کہ اِس تناظر کے پیچھے اُور کسی رشتے کو بھی دخل ہوگا۔ ابا کے ایک ہمکار غلام جیلانی کے برعکس جنہوں نے فیض صاحب کے پی اے کے طور پہ کام کیا یہ افسری ماتحتی کا تعلق نہیں تھا۔ نہ ہی استادی شاگردی کا رابطہ جیسے ہمارے پڑوسی خواجہ شاہد نصیر ایم اے او کالج امرتسر میں اُس نویں جماعت کے طالب علم رہے جس کے ٹیچر انچارج پروفیسر فیض احمد فیض تھے۔ اسی طرح لندن میں حکیم دھرم پال نے بتایا تھا کہ وہ لاہور کے ہیلی کالج آف کامرس میں فیض سے انگریزی پڑھتے رہے ہیں۔ ہمارے ابا کا رشتہ تو بس اتنا ہے کہ انہیں صحافی خالد حسن کے والد اور پھوپھی زاد بہن کے شوہر ڈاکٹر نورحسین پاکستان بننے کے دنوں میں ایک دن فیض صاحب سے ملوانے اپنے ساتھ فیض کے پرانے لاہور ریڈیو اسٹیشن والے گھر لے گئے تھے۔ اِس موقع پہ بیگم ایلس فیض بھی ملیں اور فیض کے ساس سُسر سے بھی ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی حالتِ زار پہ تبادلہء خیال ہوا۔ تو کیا کسی عزیز کے توسط سے ہونے والی اِس سرسری ملاقات کو فیض کے ساتھ کسی قریبی تعلق کا اشارہ سمجھ لیا جائے؟(جاری ہے)