اپوزیشن کے جلسے عوام کی صحت کو خطرے میں ڈالیں گے: اسد عمر 

  اپوزیشن کے جلسے عوام کی صحت کو خطرے میں ڈالیں گے: اسد عمر 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 کراچی(اسٹاف رپورٹر)وفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو پشاور میں جلسہ کرکے عوام کی صحت اور روزگار خطرے میں ڈالنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا، وزیراعظم کراچی میں ترقیاتی منصوبوں میں پیش رفت کے خواہاں ہیں، اس دفعہ باتیں نہیں کراچی میں کام ہوتا نظر آئے گا، اگلے سال کے وسط تک گرین لائن چلا دی جائے گی،وفاق سندھ حکومت کے ساتھ ہر معاملے میں تعاون کررہا ہے، احساس پروگرام کے تحت 65 ارب روپے سندھ کے عوام کو دیئے گئے، سندھ حکومت نے کراچی کے لیے 700 ارب کے منصوبے رکھے ہیں تو خرچ کئے جائیں، سندھ حکومت سے جزیروں پر بات چیت چل رہی ہے، وفاقی حکومت جزیرے جیب میں ڈال کر نہیں بھاگے گی،ترقی سندھ کے لیے ہی ہوگی۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی و خصوصی امور اسد عمراورگورنر سندھ عمران اسماعیل  نے GL-16 نمائش انڈر پاس کے ایٹ گریڈ ورکس کا افتتاح کردیا۔اس موقع پرمیڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے اسد عمر نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ترقیاتی پیکج کا کراچی کے لیے اعلان کیا گیا تھا تو لوگوں کی اس میں بھی دلچسپی ہے کہ اس میں کیا پیشرفت ہوئی، وزیر اعظم نے کہا تھا کہ آنے والے ہفتے میں وہ تمام منصوبوں کا جائزہ لیں گے تو ہم کراچی پیکج بھی ان کے سامنے رکھیں گے۔انہوں نے کہاکہ کراچی میں ٹرانسپورٹ بہتر بنانے کے لیے کام ہو رہا ہے۔کراچی میں کو 5 منصوبے وفاق کی ذمے داری تھی ان میں کے فور شامل ہے، 2 ریلوے کے منصوبے ہیں اور گرین لائن سمیت چاروں منصوبوں پر تیزی سے کام ہو رہا ہے جبکہ گرین لائن پر عملدرآمد آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور اگلے سال کے وسط تک گرین لائن یہاں چلتی ہوئی نظر آئے گی۔انہوں نے کہا کہ پانچواں کام نالوں کی صفائی اور ان کی ازسرنو تعمیر ہے تاکہ صرف ایک مرتبہ صفائی کی بات نہ ہو بلکہ مستقل بنیادوں پر ایسا حل نکالا جائے کہ کراچی جو بار بار بارشوں میں ڈوبتا ہے وہ ہمیں نہ نظر آئے۔انہوں نے کہاکہ اس کا جو پہلا حصہ ہے اس کے تحت سندھ حکومت نے وہاں سے تجاوزات کو ہٹانا ہے اور وہاں موجود لوگوں کے لیے متبادل انتظام کرناہے۔محمودآباد میں تجاوزات پر آپریشن کے دوران مزاحمت کے سوال پر اسد عمر نے کہا کہ اگر سندھ کی زمین پر ناجائز قبضہ ہوا ہے تو یہ وفاق کی کیسی ذمے داری بن گئی، زمین آپ کی، قبضہ آپ نے کروایا اور آپ کہتے ہیں کہ وفاق اس کو آ کر واگزار کرائے تو جزیروں میں اتنا شور کیوں مچ رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ 100فیصد ذمے داری سندھ حکومت کی ہے لیکن اس کے باوجود وفاق نے اربوں روپے اس کام کے لیے مختص کیے ہیں، وفاق کا پیسہ حاضر ہے اور اسے اٹھانا سندھ حکومت کا کام ہے۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ ہفتے کے دوران محمودآباد میں کام شروع ہوا ہے۔جتنی جلدی سندھ حکومت اپنا کام مکمل کر لے گی تو پیچھے وفاق کے کام کی تیاری مکمل کی جا رہی ہے اور کراچی میں تباہی مچانے والے اس پانی کو سمندر تک پہنچانے کے سلسلے میں منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔اسدعمرنے کہاکہ اس سلسلے میں کام ہو رہا ہے اور اگلے ہفتے جب وزیراعظم کا تفصیلی جائزہ مکمل ہو جائے گا تو ہم کراچی کے عوام کو آگاہ کریں گے کہ اب تک ہم نے کتنی پیشرفت کی ہے اور ہم اپنے وعدوں کو بروقت پورا کریں گے۔انہوں نے این ایف سی ایوارڈ میں سندھ حکومت کی رقم میں کٹوتی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، جتنا بھی قابل تقسیم ریونیو ہے وہ براہ راست بھی مداخلت کے بغیر کسی مجموعی فنڈز میں جاتا ہے اور سندھ کی حکومت کے پاس اپنی ریونیو اتھارٹی بھی ہے، وہاں سے بھی پیسہ آتا ہے۔انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت نے ابھی ہمیں بتایا کہ 700 ارب روپے کے کراچی کے لیے منصوبے بجٹ میں رکھے ہیں تو وہ 700ارب روپے خرچ کیوں نہیں کرتے، ہمیں خوشی ہوگی۔وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ ریلیف فوری امداد کے لیے ہوتا ہے جیسے کورونا کے لیے دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکج جو کہ 200ارب روپے کا تھا، احساس پروگرام کے ذریعے غریب ترین پاکستانیوں تک پہنچایا گیا، اس کا 34فیصد پیسہ تقریبا 65 ارب روپے سندھ کے عوام کو ملا۔انہوں نے کہاکہ جزیروں پر بات چیت چل رہی ہے اور سندھ حکومت کے ساتھ اس کی بات چیت جاری ہے، وفاق نے جزیرہ جیب میں لے کر بھاگ تو نہیں جانا، جو بھی ترقی ہو گی سندھ کے لیے ہو گی، کراچی کے لوگوں کو روزگار اور سندھ کو ریونیو ملے گا۔اس موقع پر گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا کہ یہ جزیرہ سندھ کے لیے گیم چینجر ہو گا، اس کا سارا ریونیو حکومت سندھ کو ملے گا اور وفاق ایک پیسہ بھی یہاں سے لے کر نہیں جائے گا، یہ 800 ایکڑ کا جزیرہ ہے اور سری لنکا اس سے بہت چھوٹا جزیرہ ہے اور اس کا 10 فیصد بھی نہیں ہے تو وہاں 14ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئی ہے۔

مزید :

صفحہ اول -