سپریم کورٹ کا اعتبار
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں۔ کسی میں ہمت نہیں کہ ہمیں ڈکٹیشن دے، بتا دیں کہ کس کی ہدایت پر کس کا فیصلہ ہوا، عہدہ پہلے چھوڑ دیا تھا، اب بھی چھوڑ دیں گے، غیر جمہوری سیٹ اپ قبول نہیں کریں گے۔ غلط فہمیاں نہ پھیلائیں۔ سپریم کورٹ آزاد ہے اور کسی میں ہمت نہیں کہ ہمیں روکے۔ آج تک کسی ادارے کی بات سنی اور نہ ہی دباؤ لیا، ضمیر کے مطابق فیصلے کرتا ہوں، اور عدلیہ کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہو رہی۔ الزامات لگانے والے انتشار نہ پھیلائیں۔ لوگوں کو غلط باتیں نہ بتلائیں۔ اداروں کے اوپر سے لوگوں کا بھروسہ نہ اٹھوائیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملک کے اندر قانون کی آئین کی، اور ہر طرح سے جمہوریت کی حمایت کرتے رہیں گے۔ اسی کا پرچار کرتے رہیں گے، اور اسی کو نافذ کرتے رہیں گے۔ وہ لاہور میں ممتاز اور بے خوف قانون دان محترمہ عاصمہ جہانگیر کی برسی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ ان سے پہلے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور شعلہ بیاں مقرر علی احمد کرد سمیت کئی ممتاز شخصیات نے خطاب کیا جن میں محترم جج صاحبان بھی شامل تھے۔ علی احمد کرد نے سوال اٹھایا کہ اس وقت ملک میں کون سی جوڈیشری موجود ہے؟ کیا عدلیہ وہ ہے جہاں صبح سے شام تک لوگ داد رسی کے لئے آتے اور سینے پر زخم لے کر جاتے ہیں۔ آج ہماری عدلیہ دنیا میں سب سے نچلے نمبروں پر ہے۔ میرا حق ہے کہ عدلیہ پر بات کروں۔ موجودہ عدلیہ میں تقسیم ہے۔ ملک کے 22 کروڑ عوام پر جو حاوی ہیں، انہیں نیچے آنا پڑے گا یا پھر عوام کو اوپر جانا ہوگا۔ اب برابری ہو گی۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے اور ایک عام شہری میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ جناب کرد کی تقریر کے دوران حاضرین نے پر زور نعرے لگائے، اور تقریب ایک سیاسی جلسے کی سی صورت اختیار کر گئی۔ علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے اور ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کریں گے جو 70 سال سے ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ملک میں اب کوئی قیادت نہیں۔ جو بھی آئے گا وہ اور چھوٹے قد کا ہے۔جناب کرد کا کہنا تھا کہ ملک جس حالت تک پہنچ گیا ہے، ملک کے عوام سے کہتا ہوں کہ باہر نکلو، یہ ملک ہاتھوں سے ریت کے ذرات کی طرح نکل ہو رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں ورنہ جس طرف یہ جا رہا ہے، ہم اسے برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔
جو کچھ کہا گیا، ہم اس پر کسی تبصرے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، جناب چیف جسٹس کی باتیں بھی لوگوں نے پوری توجہ سے سنیں اور جناب کرد کی کڑوی کسیلی کو بھی سننے والے کان میسر رہے۔ جناب چیف جسٹس کا یہ فرمانا حوصلہ افزا ہے کہ پاکستانی عدلیہ آزادی سے اپنا کام کر رہی ہے۔ اس سے اپنے ایک اہم ترین ادارے پر ان کے اعتماد اور بھروسے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ تنازعات کے تصفیئے کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے۔ یہ افراد اور ریاست کے درمیان ریاستی اداروں کے درمیان، وفاق اور صوبوں کے درمیان اور افراد اور افراد کے درمیان جھگڑوں کو طے کراتا اور اس کا لکھا حرف آخرسمجھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے اور ان پر داد کے ڈونگرے بھی برسائے جاتے رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ کس موقع پر کیا فیصلہ ایسا دیا گیا کہ جو تاریخ کی میزان پر پورا نہیں اترا، کون سا ایسا حکم صادر کیا گیا کہ جس کی صداقت پر تاریخ نے گواہی دی، یہ حقیقت ہے کہ جج حضرات بھی انسان ہوتے ہیں، ان سے غلطیاں ہو سکتی ہیں، ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور وہ خود بھی اپنی کسی رائے پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے مختلف بحرانوں کے دوران جو فیصلے صادر کئے ہیں، انہوں نے اجتماعی زندگی کا نظم استوار رکھا ہے، انہیں تسلیم کیا گیا ہے، اور ان سے راستہ کشادہ (یا تنگ) ہوا ہے۔ آج تک کسی ادارے کو سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی جرأت نہیں ہو سکی، اس کا سکہ چلتا رہا ہے، اور چل رہا ہے۔ پاکستانی ریاست کے استقرار اور استحکام میں اس ادارے نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے اور اب تک کر رہا ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ سپریم کورٹ (اور دوسری اعلیٰ عدالتوں) پر لوگوں کا اعتبار قائم رہے، انہیں سیاسی انداز میں موضوع بحث نہ بنایا جائے، فیصلوں پر رائے زنی ہو لیکن ججوں پر انگلیاں نہ اٹھائی جائیں۔سنی سنائی پر ان کے بارے میں آرا قائم کی جائیں نہ پھیلائی جائیں کہ جج صاحبان نہ تو عام جلسوں سے خطاب کر سکتے ہیں نہ پریس کانفرنسوں کے انعقاد کی ان کا منصب اجازت دیتا ہے ان کا دائرہ تو ان کے کمرہئ عدالت تک محدود رہتا ہے(یا رہنا چاہئے) اس لئے کسی بحث میں الجھنا ان کے لئے ممکن ہے نہ مناسب۔عاصمہ جہانگیر مرحومہ کی برسی پر جو صورت حال پیدا ہوئی وہ انتہائی غیر معمولی ہے، اس طرح کے مباحثے پاکستان کی تاریخ میں کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔ جج صاحبان اور وکلاء کرام کے درمیان ”تبادلہ خیال“ کے مواقع نہ تو میسر آتے ہیں، اور نہ ہی ان کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی سیاست اکثر اوقات الجھاؤ کا شکار رہتی ہے کبھی سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں تو کبھی اداروں سے شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ ا المیہ یہ ہے کہ ہم ملک کو آئین کے مطابق چلانے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ آئین کی بالا دستی اور منتخب اداروں کے احترام کی روایات پختہ نہیں ہو پائیں۔ بار بار کی مداخلتوں نے نہ صرف روایات کو پروان نہیں چڑھنے دیا، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ ہمیں فکری خانہ جنگی میں مبتلا رکھا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، آئین سازی کے نام پر جس کی وحدت ختم کی گئی اور ملک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ 1973ء کے دستور کے نفاذ کے بعد بھی اسے طویل عرصے کے لئے معطل رکھا گیا، دو فوجی مداخلتوں نے ہماری اجتماعی زندگی کے خدوخال بگاڑ دیئے۔ اس دھینگا مشتی میں ریاستی اداروں کے درمیان توازن برقرار نہیں رہا، شکوک و شبہات کی فضا پروان چڑھتی رہی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی…… سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات میں اضافہ کر لیا، اور سووموٹو نوٹس کے نام پر دنیا جہاں کے ہر مسئلے میں مداخلت کو اپنا حق سمجھ لیا۔ یہاں تک کہ دو وزرائے اعظم بھی ایوان اقتدار سے نکال باہر کئے گئے اور براہ راست سیاستدانوں کو تاحیات نااہل قرار دینے کو بھی اپنا حق سمجھ لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کہیں اپیل دائر نہیں کی جا سکتی اس لئے جو افراد نشانہ بنے وہ عمر بھر کے لئے سیاست میں حصہ لینے کے نا اہل قرار پا گئے۔ اس کے نتیجے میں سیاست بے اعتدالی کا شکار ہوئی۔ سووموٹو نوٹسز کی بھر مار اور بنیادی حقوق سے متعلق امور میں براہ راست مداخلت کا اختیار جس رفتاراور انداز میں استعمال کیا گیا، اس نے بھی بے اطمیناتی کی لہروں میں اضافہ کیا۔
بعض چیف جسٹس صاحبان نے جس طرح کے ریمارکس دیئے ان کے درمیان جو مناظر دیکھے،جو مناظر دیکھنے میں آتے رہے ہوں، آمرانہ انداز میں منصب داروں کو ان کے عہدو ں سے الگ کیا جاتا رہا، قومی معیشت کو جس طرح نقصان پہنچایا گیا، اور انتظامی امور میں جس طرح مداخلت کی گئی وہ سب ہماری عدالتی تاریخ کا افسوسناک حصہ ہے۔ ان کا تصور آج بھی سوہان روح ہے۔پاکستانی سیاست میں خفیہ اداروں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے بھی شکایات کو جنم دیا اور اس کی لپیٹ میں بہت کچھ آتا چلا گیا۔ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں، وہاں لازم ہے کہ لفظی تکرار میں الجھنے، الزامات لگانے یا صفائیاں پیش کرنے کے بجائے اپنے آپ پر، اور اپنے اردگرد کے حالات پر پوری سنجیدگی سے غور کیا جائے، یہ وقت انگلیاں اٹھانے یا مروڑنے کا نہیں، اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنا اپنا احتساب کرنے کا ہے۔ پاکستان کے آئین پر عملدرآمد کا ہے۔ طاقت کو قانون بنانے کا نتیجہ نہ پہلے اچھا نکلا ہے نہ اب نکلے گا۔
پاکستانی ریاست کی جو درگت بنائی جا رہی ہے یا بنا دی گئی ہے، اس پر اطمینان کا سانس لینے کی کوئی گنجائش بہرحال نہیں ہے…… ہماری دعا ہے سپریم کورٹ پر قوم کا اعتماد نہ صرف برقرار رہے، بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو، طاقت ور اس کے سامنے کمزور ہوں اور کمزور طاقتور نظر آئیں کہ آئین اور قانون کی بالا دستی اسی کا نام ہے۔جناب چیف جسٹس نے جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ماضی میں بھی منصب چھوڑ چکے ہیں اور اگر پھر کوئی ایسا موقع آیا تو بھی چھوڑ دیں گے تو اس پر سوچنے سمجھنے والے لوگوں کا ماتھا ٹھنکا ہے۔ یہ درست ہے کہ جناب چیف جسٹس کا نام ان ججوں کی فہرست میں شامل ہے جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی دوسری آئین شکنی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، اور اپنے منصب کی قربانی دے کر باعث عزت ٹھہرے، پاکستانی قوم اس وقت ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہوئی، اور وہ واپس اپنے منصب پر تشریف فرما ہوئے تو یہ قانونی، سیاسی اور عوامی حلقوں کی فتح عظیم تھی،خدا نہ کرے کہ یہ تاریخ دہرائی جائے۔ جناب چیف جسٹس کا عزم مبارک ہے لیکن یہ عرض کر دیا جائے تو نا مناسب نہیں ہوگا کہ پاکستان اب اس طرح کی کسی من مانی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب کسی کو اس کی جرأت تو کیا تصور بھی نہیں کرنا چاہئے۔جناب چیف جسٹس کی طرح پاکستانی قوم بھی یہی عزم کئے ہوئے ہے کہ اس کے معاملات آئین کے تحت چلائے جائیں۔ ہر ادارہ اپنا کام کرے، ملک کو آگے بڑھائے اور اس کے عوام کی مشکلات کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے!