میرا سچ

Nov 22, 2024

تنویر احمد نازی

 یہ ہنگامہ اور شور کیسا یہ ساری دنیا اور جہاں کے لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ جسے دیکھو حیران اور پریشان گم سم کھڑا پسینے میں شرابور نظر جھکائے کھڑا ہے۔یہ ایک دوسرے سے بات کرنا تو دور کی بات پہچانتے ہوئے بھی انجانے بن کر انجان منزل کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ ارے یہ کیا یہ تو ماں باپ بہن بھائی ہیں یہ آپس میں مل جل کیوں نہیں رہے بات کیوں نہیں کرتے۔یہ کہیں وہ دن تو نہیں جسے ہم بھول بیٹھے تھے۔یہ میری زبان بند کیوں کر دی گئی،یہ میرے اوپر بوجھ کیوں ڈال دیا گیا،یہ آواز کیسی،کس نے مجھے پہچان لیا،تم تو بڑے تاجر تھے ناں۔تم وہی ہو جو دو نمبر کا مال بیچتے تھے اور اپنے ملک سے باہر صرف اس لیے جاتے تھے کہ وہاں دو نمبر مال سستا بھی تھا اور یہاں ملک میں لا کر زیادہ منافع پر بیچنا آسان بھی تھا اور ذخیرہ اندوزی بھی کرتے تھے پھر اسے مہنگے دام بیچ کر عمرہ کی سعادت بھی حاصل کرتے تھے تاکہ دنیا نیک نام سے یاد کرے۔ہا ں ہاں تم وہی ہو جو دودھ میں صرف پانی نہیں ملاتے بلکہ کیمیکل سے خود د دودھ تیار کرتے تھے جو انسانی زندگی اور اس کی نسل کو تباہ وبرباد کر دیتا تھا۔تم نے جعلی اور پرانی گھڑی بیچ کر لاکھوں کمائے اور معاشرے میں باعزت کہلاتے پھرتے تھے اور سمجھتے رہے کہ تم کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔تمام برانڈ کے دو اور تین نمبر کا مال بنانا تمہارے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ان کاموں کی وجہ سے پھر تم شہر کی جدید سوسائٹی میں شفٹ ہو گئے تھے۔پھل اور فروٹ کی کوئی ایسی پیٹی نہیں تھی جس میں اوپر نظر آنے والا مال نیچے والے سے ملتا ہو، دکھاتے کچھ تھے اور دیتے کچھ۔تم تو کمال ہوشیاری سے لفافہ بدلنے کا فن بھی جانتے تھے اور کم تولنا تو تمہاری پرانی عادت تھی۔تم بہت سمجھدار اور لائق ڈاکٹر بھی بن گئے اور سرکاری ہسپتال میں اس بات کی کوشش زیادہ کرتے رہے کہ اچھے اور پیسے والے مریضوں کو  شام اپنے پرائیویٹ کلینک پر دیکھتے رہے اور دوا بھی مہنگی تجویز کرتے ا ور ان کمپنیوں کی تجویز کرتے رہے جو سال بعد تمہیں بیرونی ممالک کی سیر کروانے کا اہتمام کر سکے۔

ارے تم نے تو وکالت جیسے پیشے کو پیسہ بنانے کی مشین بنا رکھا تھا اب تم اپنے کیس کی فیس بھی لیتے تھے اور جج کی بھی۔کورٹ میں سائل کو بغیر کسی کارروائی کے صرف تاریخ دینے پر پورا دن ضائع کر دینا تو معمولی بات تھی۔تم تو جج تھے یہ تو خدا کی صفت تھی جو تمہیں امانتاً دی گئی،خود ہی کہو انصاف کرنے سے دل زیادہ تر افسردہ کیوں رہتا تھا اگر انصاف کرتے ہوتے تو آج یوں شرمندہ کھڑے نہ ہوتے۔غریب اور اعلیٰ سائل میں فرق کیوں رکھا۔ یاد آیا آپ تو سرکاری افسر تھے جو دفتر صرف افسری کرنے جاتے،ہر روز میٹنگ اور ٹیلیفون پر مصروفیت آپ کا مشغلہ ہو تا،یا اپنے سے بڑے افسر کی خوشامد۔حکومت سے مراعات حاصل کرنے کے لیے الٹی سیدھی تجاویز دینے کے علاؤہ کوئی تعمیری کام آپ کے پورے دور میں کہیں نہیں۔ عوام اور غریبوں کی مشکلات کو دور کرنے کیلئے کبھی اپنی قلم کو کوئی تکلیف بھی نہیں دے سکے۔تم نے اپنے بہن بھائیوں کا حق کھایا ان کی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ رکھا،بہنوں کا حق اور وراثت تک بھول گئے۔تمہارا ہمسایہ بیمار بھی تھا اور ضرورت مند بھی مگر ایک بار بھی تم ان کی دستگیری نہ کر سکے،نہ کسی یتیم بچوں کے ساتھ وقت گزارا نہ انکی تعلیم و تربیت اور بیماری میں کوئی مدد کر سکے۔تمہارا ہمسایہ اور اس کے بچے بھوک سے نڈھال رہے اور تم پیٹ بھر کے سوتے رہے تمہیں نیند کیسے آجاتی تھی۔تمہارے پاس نوکری کرنے والے ہمیشہ تمہارے غضب کا شکار رہے۔کبھی ان پر رحم نہ کر سکے۔ان کے گھر چولہا کب سے نہیں جلا یہ پوچھنا بھی گوارا نہ کیا۔ ضرورت سے زیادہ آسائشوں میں رہے اور کبھی شکر بھی ادا نہ کر  سکے۔ہم نے جو کچھ بھی دنیا میں تمہیں دے رکھا تھا اگر اس پر راضی رہتے تو آج جو آپ ساتھ لاتے تو ہو ہم بھی راضی ہوجاتے۔کیا تم سمجھتے تھے کہ وہ دولت،شان و شوکت اور طاقت تمہاری عقل اور محنت کی وجہ سے تھی،یہ تمہاری آزمائش تھی امتحان تھا۔ جن کا حق کھایا جاؤ انہیں تلاش کرنے کی کوشش کرو اور ان کا حق واپس کرو ان سے معافی مانگو۔تم اپنی جانوں پر بہت ظلم کر چکے آج اپنا فیصلہ خود کر لو،اپنے منصف خود بن جاؤ۔

مزیدخبریں