روس۔ یوکرین جنگ پر اردو پرنٹ میڈیا میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ایک یہ کہ ہم پاکستانی اپنے داخلی جھگڑوں میں اس قدر الجھے رہتے ہیں کہ خارج پر نظر ڈالنے کی ”فرصت“ نہیں ملتی۔ اور دوسرے ہم سمجھتے ہیں کہ روس اور یوکرین دونوں، پاکستان سے بہت دور ہیں۔ انڈیا، افغانستان اور ایران چونکہ ہمارے ہمسائے ہیں اس لئے ہمیں ان تک محدود رہنا چاہیے۔ ہمارے شاعر نے جو کہہ رکھا ہے:
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ہم خود کو ”رندِ خراب حال‘ تصور کرتے ہیں جسے چھیڑنا گویا گناہِ کبیرہ کی ذیل میں شمار کیاجاتا ہے۔
ہم میں سے ایسے لوگ بہت کم ہیں جو جانتے ہیں کہ دنیا سکڑ کرایک گاؤں بن چکی ہے جہاں کے باسیوں کو ایک دوسرے کے حال احوال کی خبر لینی ایک ضرورت بن چکی ہے۔ روس اور یوکرین ہمارے ”گاؤں“ کے شاید کسی دور دراز کونے میں واقع ہیں لیکن اس گاؤں پراگر کوئی آفت ارضی و سماوی ٹوٹ پڑتی ہے تو سارا گاؤں تہس نہس ہو جاتا ہے۔
روس اور یوکرین ہمارے دورپار کے ہمسائے ہیں لیکن ان کی خبر اخبارلینااگر Must نہیں تو Necessary ضرور ہے۔ ہمیں درجِ ذیل نکات پر بھی غور کرنا جاہیے:
1۔روس اور یوکرین بے شک پاکستان سے دور ہیں لیکن ان کی جنگ پھیلتی ہے تو تیسری عالمی جنگ کا روپ دھا رسکتی ہے۔ یہ جنگ دراصل روس اور یوکرین کے درمیان نہیں لڑی جا رہی بلکہ امریکہ اور روس کے درمیان لڑی جا رہی ہے۔
2۔امریکہ خود کو دنیا کی واحد سپرپاور بنائے رکھنے پر مصر ہے۔ وہ واقعی آج کی واحد سپرپاور ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد بہت نمایاں ہو کر سامنے آ چکی ہے۔
3۔امریکہ ایک ایسا ہاتھی ہے جس کے پاؤں میں سارے مغرب(یورپ) کا پاؤں ہے اور ہم ایشیا کے غریب غرباء تو اس ہاتھوں کے پاؤں کے اردگرد کی مٹی میں سانس لے رہے ہیں۔ چنانچہ ہمیں اس ہاتھی کی نقل و حرکت کی خبر رکھنی چاہیے۔
امریکہ میں الیکشن ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے موجودہ صدر دوماہ تک وائٹ ہاؤس میں ہیں۔ اس کے بعد وہ ”بلیک ہاؤس“ میں چلے جائیں گے۔ یعنی ان کی ڈیموکریٹ پارٹی ان کو بلیک لسٹ کر دے گی۔ ہماری طرح نہیں کہ پارٹی جب کسی صدر یا وزیراعظم کو وائٹ کر دیتی ہے تو اس کی اگلی نسلیں بھی وائٹ رہتی ہیں …… یعنی وہ ہمارے راجہ اور ہم ان کی پرجا۔گویا یہ پاکستان عہدِ قدیم کے انڈیا کے کورووں اور پانڈوؤں کی سرزمین ہے۔ جے ہو مہا بھارت کی!
امریکہ کے صدر ٹرمپ جو 20جنوری 2025ء کو قصرِ ابیض میں داخل ہوں گے ان کے بارے میں امریکہ کا ہر مقتدر طبقہ ان کے خلاف ہے۔ یہ تو وہاں کے عوام ہیں جنہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی ہے۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکہ جنگوں سے باز آجائے۔ اپنا سرمایہ اور اپنے ہتھیار خواہ مخواہ ضائع نہ کرے۔ انہوں نے برملا کہہ رکھا ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھتے ہی ’جنگ بندی‘ کا اعلان کر دیں گے۔
یوکرین کی یہ جنگ امریکی پراکسی ہے۔ اس میں امریکی سولجرز برسرِ جنگ نہیں۔ صرف امریکی سرمایہ، امریکی ہتھیار اور امریکی عالمی امداد جو ناٹو کی شکل میں ہے، وہ روس کے خلاف لڑ رہی ہے۔ یوکرین کے فوجی اور سویلین مصروفِ کارزار ہیں۔ فروری 2022ء سے لے کر اب تک اس جنگ میں دس لاکھ فوجی اور سویلین مارے جا چکے ہیں۔ لیکن بتایا گیا ہے کہ ان مارے جانے والوں میں فوجی زیادہ اور سویلین کم ہیں۔ باایں ہمہ امریکہ کی سفاک طینتی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ روس پر اٹریشن وارد کرنے کے شوقِ فضول میں غلطاں ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ ایسا کرکے روس کی فوجی قوت کو بتدریج کمزور کر رہا ہے۔(اس کا نام اٹریشن ہے) اگر کل کلاں روس اور امریکہ بہ نفسِ نفیس آمنے سامنے آئے تو روس کی کم ہوتی فوجی طاقت، امریکہ کے کام آئے گی۔ چنانچہ امریکہ یوکرین کو سرمایہ اور ہتھیار تو فراہم کررہا ہے، خود اس دلدل میں چھلانگ نہیں لگا رہا۔
صدربائیڈن دو ماہ تک ابھی امریکی صدر ہیں۔ انہوں نے دوروز پہلے یہ اجازت یوکرین کو مرحمت فرما دی ہے کہ وہ روس کے اندر دور تک مار کرنے والے امریکی میزائل روس پر داغ سکتا ہے۔ یعنی دوماہ بعد جو کچھ امریکی نو منتخب ری پبلکن صدر کرنا چاہتا ہے وہ آج کا ”دوماہا“ ڈیموکریٹک صدر، اس کے برعکس ایکشن لینے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے……
وجہ یہ ہے کہ امریکی فوج (پینٹاگان) نہیں چاہتی کہ دنیا مین امن قائم ہو اور وہ ”بیکار“ ہو جائے۔ امریکی فوج کی بقاء اس میں ہے کہ وہ بالواسطہ یا براہِ راست جنگ کی آگ سلگائے رکھے۔ لیکن امریکی عوام نے امریکی فوج کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے اور ٹرمپ نے بائیڈن کی نامزد کردہ خاتون کو ایک عبرت ناک شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکی ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں بھی بالآخر امریکی فوج اور امریکی میڈیا کے علی الرغم صف بستہ ہو چکے ہیں۔
امریکی صدر بائیڈن نے یوکرین کو کہہ دیا ہے کہ وہ دور مار امریکی میزائلوں کی بارش روس کے اندر روسی فوجی اہداف پر ”برسا“ سکتا ہے۔ امریکی پرنٹ میڈیا جوبائیڈن کے حق میں ہے (دی نیویارک ٹائمز اور دی واشنگٹن پوسٹ وغیرہ) اس نے رپورٹ کیا ہے کہ یوکرین ایک طویل عرصے سے امریکہ سے تقاضا کررہا تھا کہ جو دورمار امریکی میزائل اس کو امریکہ کی طرف سے ”عطا“ کئے گئے ہیں، ان کو روس کے اندر تک استعمال کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے لیکن امریکہ (امریکی صدر) اس سلسلے میں اب تک حیص بیص سے کام لے رہا تھا۔ اب یہ رکاوٹ دور کر دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ظاہر کی گئی ہے کہ روس نے شمالی کوریا سے جو دس ہزار فوجی اپنے ہاں منگوائے ہیں، وہ جلد ہی روسی فوج سے مل کر یوکرین کی سپاہ سے نبردآزما ہوں گے۔ امریکہ اپنے اس اقدام کو ”ادلے کا بدلہ“ قرار دے رہا ہے…… خدا جانے ادلہ پہلے وار کرتا ہے یا بدلہ پہلے جنگ میں اترتا ہے۔ لیکن امریکہ کو اس سے کیا؟فوجی اور سویلین تو یوکرین اور روس کے مارے جا رہے ہیں۔ لیکن جو قارئین دوسری عالمی جنگ میں اتحادیوں کی اتلافات (Casualties) کی تعداد سے باخبر ہیں وہ جانتے ہیں کہ اُس جنگ میں روس کے دو کروڑ سے زیادہ فوجی اور سویلین مارے گئے تھے۔ ان کے مقابلے میں جرمنی اور جاپان دونوں محوری (Axis) طاقتوں کے اتلافات بہت ہی کم تھے۔
روس کے اندر دور تک جا کر فوجی اہداف (Targets) پر امریکی ہتھیاروں کا حملہ کیا گُل کھلائے گا اور اس سلسلے میں پوٹن کیا سوچ رہے ہیں، اس کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں …… کیا روس صرف یوکرین کو نشانہ بنائے گا؟ کیا روس کو معلوم نہیں کہ جو میزائل اس پر داغے جا رہے ہیں، ان کا منبع کیا ہے؟کیا امریکی صدر بائیڈن یہ چاہتے ہیں کہ وہ جاتے جاتے پوٹن کو مجبور کر دیں کہ وہ چین کو بھی اس جنگ میں گھسیٹ لائے؟
چین، اس جنگ میں اب تک غیر جانبدار رہا ہے۔ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ روس جو ہتھیار، یوکرین کے خلاف استعمال کر رہا ہے وہ کہاں کہاں سے آ رہے ہیں۔
]ہزاروں میزائل اور لاکھوں ڈرون جو گزشتہ تقریباً تین برس سے روس کی طرف سے یوکرین کے دارالحکومت کیف (Kyiv) پر برسائے جا رہے ہیں، کیا وہ چین یا ایران کی طرف سے فراہم کئے جا رہے ہیں، اس کی سُن گُن ابھی تک پردۂ راز میں ہے[
ابھی تک کریملن (روس) کی طرف سے کوئی جواب امریکی صدر بائیڈن کے اس تازہ ”اجازت نامے“ کے بارے میں نہیں آیا۔ پوٹن خاموش ہے۔کیا روس کا میڈیا ابھی تک یہ باور کررہا ہے کہ وہ (روسی) دیکھنا چاہتے ہیں کہ یوکرین کا صدر زیلنسکی اس سلسلے میں کیا اقدام اٹھاتا ہے؟
پوٹن گزشتہ تین برسوں میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی (ناٹو ممالک) کس حد تک آگے جا سکتے ہیں۔ اس کا جواب صرف جوہری ہتھیاروں کا استعمال نہیں۔ غیر جوہری ہتھیار بھی اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ ان کی تباہ کاری، جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاری سے کم نہیں …… عین ممکن ہے کہ جوہری ہتھیار مستقبلِ قریب میں استعمال نہ کئے جائیں۔ لیکن عین ممکن ہے کہ وہ غیر جوہری ہتھیار ضرور استعمال کئے جائیں جو روس اور امریکہ دونوں کے پاس ہیں۔ اگر وہ ہتھیار امریکی یا روسی ترکش سے نکل کر ماسکو یا واشنگٹن کا رخ کرتے ہیں تو پھر:
چیست یارانِ طریقت بعد ازیں تدبیرِ ما
]ابھی یہ کالم لکھ رہا تھا کہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ یوکرین نے وہ بیلاسٹک میزائل روس پر داغ دیئے ہیں جن کو پہلے امریکہ نے فائر کرنے سے منع کر دیا تھا۔ اس صورتِ حال نے تیسری عالمی جنگ کے امکانات بڑھا دیئے ہیں …… اس پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے[
(جاری ہے)