بگڑا ہوا معاشرہ اور قانون کی لاچاری

بگڑا ہوا معاشرہ اور قانون کی لاچاری
بگڑا ہوا معاشرہ اور قانون کی لاچاری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ مشہور امریکی کوہ پیما اور فوٹوگرافر گلین روول (Galen Rowell) تھا جو پاکستان میں کئی مرتبہ سیاحت کے لیے آیا۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنی سیر کے موقع پر کہا تھا” پاکستان میں ہر شخص انتہائی جلدی میںہوتا ہے، مگر اسے کہیں نہیں جانا ہوتا۔“میرا نہیں خیال کہ کوئی شخص ایک لائن میں پاکستانی رویے اور جلد بازی کو اس سے بہتر انداز میںبیان کر سکتا ہے ۔ہاں اگر آپ کی نظر سے یہ فقرہ گزرا ہو” پاکستان آئے ہو ،جلدی سے نکل چلو“تو اور بات ہے۔ خوش قسمتی سے یہ دونوں جملے، اگرچہ ایک تلخ حقیقت کی غمازی کرتے ہیں ، زبان ِ زد ِ عام نہیں ہیں۔
وطن ِ عزیز کی ہر سڑک، ہر گلی بلکہ ہردستیاب جگہ پر عوام کا ایک جمع ِ غفیر انتہائی جلدی میں ہوتا ہے، مگر انہیں کہاں جانا ہوتا ہے، یہ ایک سر بستہ راز ہے۔ ان کی جلدبازی کے سونامی کے سامنے بچارے قوانین کی کیا اوقات ہے۔ اس آزاد منش قوم کے لیے قوانین بنائے ہی اس لیے جاتے ہیںکہ ہر کوئی انہیں توڑ کر اپنی قومی خود مختاری کا ثبوت دے سکے۔ اس بے قابو انبوہ میں اگر کوئی ”ناقص العقل “ قانون پر چلنے کی کوشش کرے تو وہ باغی نظر آتا ہے، چناچہ دھتکار دیا جاتا ہے۔ شب و روز ہمارے سامنے یہی تماشا لگا رہتا ہے۔ پاکستان کی 187 ملین کی آبادی ، جس کا زیادہ تر ارتکاز تین صوبوں میں ہے، مَیں ہر شخص دوسرے سے الجھا ہوا ہے ۔ اگر صحافتی زبان نئے محاورے ٹکسال کرنے میں مانع نہ ہو تو بڑے وثوق سے کہا جاسکتا ہے”جہاں بھی ہو کوئی پاکستانی، قانون بچارے کے کیا معانی“
ہماری پر ہجوم سڑکوں پر بے قابو رش پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، مگر ہمارے ہاں تو الفاظ بھی آئین کا درجہ رکھتے ہیں یعنی بے اثر۔ ہماری سڑکیں، جو اب ماشااﷲ کافی وسیع ہوتی جارہی ہیں، پر ایک لین میں سے کوئی کار والا دائیں طرف مڑ رہا ہے تو اس کے پیچھے سے آکر اسے اوور ٹیک کرنے والے کی نیت بائیں طرف کی ہے۔ کوئی اور گاڑی والا ان دونوں کے درمیان سے اپنی تقدیر کو صاف چیلنج کرتا دکھائی دے گا۔ اس مربوط، مگر متضاد کاوش کے نتیجے میںکوئی بھی کہیں نہ جا سکے گا اورچشم زدن میں گاڑیوں کی ایک طویل قطار حد ِ نگاہ تک پھیل جائے گی اور ہر ڈرائیور کا ہاتھ ہارن پر ہو گا، کہ جب تک گاڑی نہیں چلتی، اسی سے کام چلائیں۔اب کاروںکی ان کچھوا نما قطاروں کے بیچ میں جو چند ملی میٹر فاصلہ ہوتا ہے ، وہاںسے موٹر سائیکل سوار اپنی بے مثال مہارت ، حماقت، بے خوفی ، یا ان سب کی بے بدل آمیزش سے وجود میں آنے والی ڈرائیونگ کا مظاہرہ کر تے ہوئے گزرنے کی کوشش میں ہوں گے ، جبکہ ”گاہے گاہے ، کج کلاہے“ کی عملی تصویر بنے کچھ جری جوان، اپنی بیل، اونٹ یا گدھا گاڑیوں کو بھی جدید کاروں سے آگے نکالنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ اب اگر اس افراتفری پر نظر ڈالیں تو شیکسپیئر کے لازوال ڈرامے ”میکبتھ“ کی چڑیلوں کابنایا ہوا سوپ، جس میں انواع و اقسام کی خراب چیزیں ڈالی گئی تھیں، اپنی سڑکوں پرکھولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں فاﺅل ہی فیئر ہے۔
یہ ہنگامہ صرف سڑکوں پر ہی موقوف نہیںہوتا ہے۔ اگر آپ کسی دکان پر خریداری کررہے ہیں تو ابھی آپ اپنی باری پر ادائیگی کرہی رہے ہوںگے کہ کوئی درجن بھر افراد دخل در معقولات کا اچھا خاصا ارتکاب کرتے ہوئے آپ کو موقع دیے بغیر آگے نکل آئیںگے اور دکان دار سے بیک وقت مختلف اشیا کی قیمتیں اور عجیب و غریب قسم کے سوالات کرنا شروع کر دیں گے۔ دوسری طرف دکاندار بھی کسی سے نہیں کہتا ہے کہ وہ اپنی باری کاانتظار کرے اور سب کو بیک وقت نمٹانے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ سب کوجلدی ہوتی ہے، اس لیے سب کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ کاﺅنٹر پر افراتفری کے نتیجے میں یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ چیزیں تبدیل نہ ہوجائیں اور اگر یہ دکان ادویات کی ہو تو پھر معاملہ سنگین ہو سکتا ہے۔ ایسی ہی افراتفری آئیر پورٹس اور جہاز میں بھی نظر آتی ہے۔ ابھی کاک پٹ سے اعلان ہوتا ہی کہ تمام مسافر اپنے اپنے بیگ، ہینڈ بیگ ،بریف کیس وغیر ہ سنبھالے اندر لپکتے ہیں۔ اسی طرح جب جہاز لینڈ کرتا ہے اور ابھی انجن بھی پوری طرح بند نہیںہوتے کہ مسافر نشستوں کے درمیان جگہ پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی موبائل فون پر چیخ و پکار شروع ہوجاتی ہے ”چاچے رفیق سے کہنا آیئر پورٹ نہ آئے، ہاں ہاں جہاز اتر چکا ہے، نہیں ابھی میں باہر نہیں آیا ہوں، سامان؟ ابھی نہیں ملا“ اس سے پہلے جب جہاز نے پرواز کرنا ہوتی ہے تو موبائل فون کے صارفین سے اپیل کی جاتی ہے کہ فون آف کردیں، مگر بہت سے لوگ متواتر ”آن ائیر “ رہتے ہیں۔ جہاز رن وے پر بھاگ رہا ہوتا ہے اور وہ ٹونی گریگ بنے ہوتے ہیں”نہیں ابھی ہم نے پرواز نہیں کی جہاز بھاگ رہا ہے انشااﷲ جلد ہی، ارے نہیں چاچے رفیق سے کہنا کہ“ان کی اس رننگ کمنٹری سے اندازہ ہو تا ہے کہ اس وقت کرہِ ارض پر موجود انسانیت کے لیے سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ محمد بوٹا لاہور پہنچ گیا ہے۔
تاہم یہ تمام آئین و قانون اور اخلاقی رویوںکی کھلی خلاف کرنے والے افرادپاکستا نی فضائی حدود سے باہر جاتے ہی نہایت مہذب اور اصول پسند شہری بن جاتے ہیں۔ رویوں میں بپا ہونے والی یہ یک لخت تبدیلی حیران کن ہے، تاہم اس سرپھری قوم کا چند گھنٹوں، یا اس سے بھی کم، کی مسافت کے بعد قانون کی پابندی کرنا طلسم ہوش ربا کا حصہ نہیںہے۔ اپنے ملک میں خود کو پھنے خان سمجھ کر قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے پاکستانی جب کسی اور ملک میںہوتے ہیں تو وہ جانتے ہیں کہ اگر اب قانون سے ہلکی سی سرتابی بھی کی تو اُن کو گردن سے پکڑ کر اندر بند کر دیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ قانون شکنی پر سزا نہ ملتی ہو، مگر اس کا خوف اس قدر ہے کہ کوئی اس کی جرات نہیںکرتا۔ وہاں پاکستانی جانتے ہیں کہ”مک مکا “ کا کوئی آپشن نہیں ہے اور اُن کو جیل جانا ہو گا ، بھاری جرمانہ ادا کرنا ہو گا اور اگر کیس سنگین نوعیت کا ہوا تو ڈی پورٹ بھی کر دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ نہایت فرماں برداری سے لائن میں لگ جاتے ہیں اور ہر کام قاعدے قانون کے مطابق کرتے ہیں۔
جیسے ہی وہ اپنے ملک میں آتے ہیں تو ان کے اندر کا جن (یا اصل انسان) انگڑائی لے کر بیدار ہوجاتا ہے۔ اب کون سا قانون ، کون سا ضابطہ؟یہاں قانون کے لمبے ہاتھ بہت سی الجھنوں کا شکا ر رہتے ہیں۔ اگر کسی کو پکڑ بھی لیا جائے تو اُس کو بچانے والے بااثر افراد کی ٹیلی فون کالز کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ بچارے پولیس اہل کار اپنی وردی بچائیں یا کاغذ کے کچھ پرزوں کا خیال رکھیں؟پولیس والے ڈرتے ہیں کہ جس پر بھی ہاتھ ڈالا حکومت کے کسی ”تھم “ کا ر شتے دار نکل آئے گا۔ ایک مرتبہ میرے بھائی خالد حسن نے لکھا تھا”پاکستان میں کامیابی کا دارومدار تعلقات پر ہے۔“
قانون کی لاچاری کی وجہ سے اس ملک کے ”وی وی آئی پیز“ اور اُن کے تعلق دار عوام کے ساتھ نہایت توہین آمیز سلوک روا رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ سوال کرناخود کو احمق ثابت کرنے کے مترادف ہے کہ قانون ان افراد کو گرفت میںکیوںنہیںلے سکتا۔ ان افراد نے بہت سی حفاظی تہیں چڑھائی ہوئی ہیں اور ہر تہہ ”قانون پروف “ ہے۔ ہمارے سربراہان ِ مملکت، وزرائے اعظم، وزرا، وزرائے اعلیٰ، منصفیں، دفاعی اداروںکے افسران، نام نہاد سائنسدان ، رئیل اسٹیٹ کے شاہجان ، نو دولتیے اور ان کے شاہزادے پاکستان کے مستقبل کے حکمران ہیں اور یہ سب کے سب قانون کی پابند ی سے آزاد ہیں۔ الحذر اے اہل پاکستان الحذر!یہ ہے ہمارا مستقبل!میرا ایک دوست جو بہت محنت کے بعد ترقی کرکے بڑے سرکاری عہدے تک پہنچا، نے اپنے بچوں کو دھمکی آمیز نصیحت کرتے ہوئے کہا” اگر مَیں نے تمھیں سرکاری گاڑی کے قریب بھی دیکھ لیا تو تمہاری خیر نہیں۔“اُس نے اپنی بات پر عمل کرکے دکھایا ، تاہم یہ چند سال پہلے کی بات ہے۔ اب تو اُس سے بہت کم درجے کے ملازمین سرکاری گاڑیوں کا پورا بیٹرہ اپنے ذاتی تصرف میں رکھتے ہیں۔ حالات اس طرح کے ہیں کہ بعض اوقات یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ کون زیادہ برا ہے۔ اقتدار کے نشے میں چور حکمران طبقہ جو اس ملک پر حکومت کرنے کے لیے دنیا میں آیا ہے یا ان کی نازو نعم سے پلی اور بگڑی ہوئی اولاد ہمارے مستقبل کے آقا۔  ٭

مزید :

کالم -