کسانوں کے واجبات، چینی کے نرخ اور شوگر ملوں کا موقف
شوگر ملز مالکان نے چینی کے نرخوں میں یکایک دو روپے فی کلو کا اضافہ کر دیا ہے اور بوری کے نرخ 5800روپے کر دیئے گئے ہیں، تھوک نرخوں میں اضافے کے اثرات پرچون پر بھی ہوں گے، چینی پہلے ہی بازار میں60روپے سے 62روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔دوسری طرف شوگر ملز مالکان کی طرف سے چینی برآمد کرنے کی اجازت مانگی گئی اور یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں فاضل چینی موجود ہے اس میں سے60لاکھ ٹن برآمد کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ آمدنی ہو، مُلک کو زرمبادلہ ملے اور شوگر ملز کسانوں کو ادائیگی کر سکیں۔ یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں گنے کے نرخ یکساں مقرر کئے جائیں۔یہ دو الگ الگ خبروں کے اقتباسات ہیں، جن سے ایک طرف تو چینی کے فاضل ہونے کا اقرار کیا گیا اور دوسری طرف نرخوں میں اضافہ بھی کر دیا گیا ہے، اِسی طرح کسانوں کو ان کے گنے کے واجبات ادا نہیں کئے جا رہے ان کو چینی کی برآمد سے مشروط کیا جا رہا ہے۔عوام اور کسان کہتے ہیں کہ ان کا استحصال ہو رہا ہے اور یہ سب اس لئے ہے کہ شوگر ملیں بڑے اور بااثر سیاست دانوں کی ملکیت ہیں اور یہ ملز مالکان کاشتکاروں کو گنے کی فروخت اور خود خریداری کے وقت پریشان کرتے اور پھر ادائیگی میں بلاوجہ کی تاخیر کرتے ہیں جو اس مطالبے سے ظاہر ہے کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے کہ کسانوں کو ادائیگی ہو، حکومت کو اس ساری صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا، کسانوں کو ان کا حق ملے اور عوام ناجائز منافع خوری سے بچ سکیں، مالکان اپنا جائز منافع وصول کریں اور کسانوں کے واجبات فوری طور پر ادا کریں۔