دفاع کیلئے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تصدیق کا مقصد امریکہ کو ڈرانا نہیں ، پرویز رشید

دفاع کیلئے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تصدیق کا مقصد امریکہ کو ڈرانا نہیں ، ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 لندن / اسلام آباد (آئی این پی ) وفاقی وزیر اطلاعات ونشریا ت سینیٹر پرویز رشید نے اس تاثر کی نفی کی کہ پاکستان کی جانب سے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے بنانے کی تصدیق کا اس وقت مقصد امریکہ کو ڈرانا ہے۔ درحقیقت ہم اپنی آزادی اور خودمختاری کے دفاع کی ہر وقت تیاری کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہماری آزادی کو کہیں نہ کہیں سے خطرے محسوس ہوتے رہتے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کو دےئے گئے انٹرویو میں سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ امریکیوں کے فوجی تعلقات میں اب بہت وسعت آنا شروع ہو چکی ہے لہٰذا امریکہ کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ ان بڑھتے تعلقات کا پاکستان کو کبھی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہامریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بتدریج وسعت آ رہی ہے، اب یہ صرف فوجی تعلقات تک محدود نہیں ہیں،وزیراعظم نوازشریف امریکی صدر سے ملاقات میں تمام موضوعات پر اپنا موقف پیش کریں گے۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ امریکہ کے ساتھ پہلے صرف فوجی نوعیت کے تعلقات ہوتے تھے جو اچھے رہے اور جن سے پاکستان کو بہت فائدہ بھی ہوا لیکن اب تعلقات وسیع ہو رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکہ کے بھی تعلقات موجود ہیں اوریقیناً جب ملاقات ہو گی تو ان تعلقات پر بھی بات ہو گی کیونکہ ایک دوسرے کو اپنے خیالات کے مطابق دلیل دینے کا موقع ملتا ہے اور ہماری کوشش ہوگی کہ انھیں ہم اپنا موقف سمجھا بھی سکیں۔ایک سوال کے جواب میں پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ایجنڈا بھی علاقے کا امن ہے جس سے ہم اپنے مسائل پر قابو پا سکیں گے لیکن یہ امریکہ کا نقطہ نظر ہو گا، اس میں ہمارا بھی موقف ہے اور وزیر اعظم وہ موقف پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پرویز رشید کہنا تھا کہ پاکستان نے بات چیت کا عمل تو شروع کر دیا تھا اور وہ پاکستان کی سرزمین پر ہوئی اور اسے خوش آئند بھی سمجھا گیا لیکن پھر کسی نے اسے سبوتاژ بھی کر دیا۔اگر یہ سبوتاژ نہ ہوتا تو شاید کافی آگے بڑھتا۔ پاکستان تو چاہے گا کہ بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کروایا جائے۔ اگر تمام فریق امن پر تیار ہو جاتے ہیں تو ایک مستحکم افغانستان سے پاکستان میں بھی بہتری آئے گی لہٰذا ہم اس کی کوشش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ فوجی تعلقات کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے تعلقات جیسے کہ تعلیم، صحت، توانائی کے مسائل وغیرہ میں بھی انھوں نے دلچسپی کا اظہار کرنا شروع کیا ہے۔ بہت سے سماجی شعبوں میں وہ پہلے سے موجود بھی ہیں تو ان موضوعات پر بات کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ وزیر اعظم ان تمام موضوعات پر اپنا موقف پیش کریں گے۔پرویز رشید نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ چیزوں کا تبادلہ بھی کرتے ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے مفادات بھی ہیں۔امریکہ اس خطے میں 25 سال سے موجود بھی ہے اگرچہ محدود واپسی شروع بھی ہوئی ہے لیکن اس کے مستقل مفادات بھی ہیں۔۔دنیا کی آبادی کا نصف اس خطے میں بستا ہے۔ جہاں جہالت ، غربت اور بیماری ہے۔ کب تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ جنگوں میں مصروف رہیں گے؟پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ’ہم سے ایک پانچ گنا بڑا ملک ہے جس کے پانچ گنا بڑے ذرائع ہیں۔ ان کے اور امریکیوں کے فوجی تعلقات میں اب بہت وسعت آنا شروع ہو چکی ہے۔ امریکہ کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ ان بڑھتے تعلقات کا پاکستان کو کبھی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے دفاع کے لیے یہ تدابیر کی ہیں۔ یہ احتیاطی تدابیر ہیں اور صرف اور صرف پاکستان کے دفاع کے لیے ہیں۔

مزید :

صفحہ اول -