اُف یہ پولیس کلچر، تبدیلی مشکل؟
سیر صبح کے بعد آ کر بیٹھے تو ساتھیوں میں سے کنور صاحب نے بتایا کہ یہاں سے پرلی گلی میں ڈاکہ پڑا ہے، دن کے وقت دروازہ بجایا گیا، بچی نے یہ دیکھنے کے لئے کہ کون آیا ہے دروازہ کھولا تو دو تین نوجوان درانہ اندر گھستے چلے آئے اور پستول نکال کر گھر والوں کو نشانے پر لے لیا، ڈاکوؤں کا ہوم ورک بھی مکمل تھا اس وقت گھر میں کوئی مرد بھی نہیں تھا وہ بڑے اطمینان سے گھر میں سے زیور، نقدی اور بعض قیمتی اشیاء لے کر چلتے بنے، تھانہ بھی اب تو مصطفےٰ ٹاؤن کے اندر نئی عمارت میں ہے اور یہ گلی چند میٹر کے فاصلے پر ہے، واویلا کرتے ہوئے تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کے لئے آئے جو ابھی تک درج نہیں ہوئی۔ یہ واقعہ سُن کر گھر آئے اور اخبار دیکھا تو اسی علاقے میں ایجوکیشن ٹاؤن کی خبر مل گئی کہ نامعلوم افراد نے ایک پراپرٹی ڈیلر کی اہلیہ کو گولیاں مار کر قتل کر دیا اور فرار ہو گئے۔
مصطفےٰ ٹاؤن یوں تو ایک باقاعدہ سکیم اور صاف ستھری آبادی ہے،لیکن شہری سہولتوں کے ذمہ دار اداروں ایل ڈی اے اور ٹاؤن(علامہ اقبال) کے عملے کی لاپرواہی اور نظر انداز کئے جانے کے باعث ایک گاؤں کا منظر پیش کرتی ہے۔ متعدد خالی پلاٹوں پر جھگی نشینوں کا قبضہ ہے، جن کے بارے میں جرائم کے شبہات پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کوڑا جلاتے ان کے گدھے اور بھیڑیں علاقے کا سبزہ کھاتی اور مرکزی گرین بیلٹ میں پھرتی ہیں۔ یہی نہیں، کرامت کالونی اور قیوم بلاک میں بھینسوں کے باڑے ہیں، یہ بھینسیں پورے علاقے میں مٹر گشت کر کے گھروں کی کیاریاں کھاتی اور گندگی پھیلانے کے علاوہ دو وقت مرکزی گرین بیلٹ میں گھاس اور پودے کھاتی ہیں، کئی بار شکایت کی اور خبریں شائع ہونے کے باوجود ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں، حالانکہ شہری علاقے میں مویشی رکھنے کی ممانعت ہے۔
یہ سب اپنی جگہ، لیکن اس علاقے میں ڈاکے اور راہزنی کی وارداتیں تسلسل سے ہوتی ہیں اور کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا، ہر سات آٹھ یا دس روز کے بعد کسی گھر میں ڈاکہ زنی ہوتی ہے اور راہ چلتے نوجوان اور بزرگ بھی لٹ جاتے ہیں، کئی بار خواتین کے زیور بھی اُتروا لئے گئے۔ اس تھانے میں کئی ایس ایچ او تبدیل ہو کر تعینات ہوئے،لیکن ان وارداتوں پر اثر نہیں پڑا، فرق اگر سامنے آتا ہے تو وہ یہ کہ جب نیا افسر آئے تو کچھ عرصہ خاموشی ہو جاتی ہے اور اس کے بعد پھر سے یہ کام شروع ہو جاتا ہے۔
پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ اِس صوبے میں جرائم کی شرح دوسرے صوبوں کی نسبت کم ہے،لیکن اخبارات سے تو یہی علم ہوتا ہے کہ شہری روزانہ لٹتے رہتے ہیں اور کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا،وزیراعلیٰ کی سخت ترین ہدایات ہیں اور اکثر تھانوں میں ایڈمنسٹریٹر بھی لگائے گئے ہیں اس کے باوجود ڈاکوں اور راہزنی کی ایف آئی آر درج کرنے سے گریز کیا جاتا ہے اور درخواستیں لے کر دباؤ کے بعد یا تو چوری اور یا پھر اشیاء کی گمشدگی کی رپورٹ درج کی جاتی ہے اور شاید یہی طریقہ جرائم کی شرح کم کرنے والا ہے، تھانہ مصطفےٰ ٹاؤن وحدت روڈ کے علاقے میں تو چوری۔ ڈاکے اور راہزنی کی وارداتیں کبھی بھی نہیں رکیں اور سیر صبح والے مسلم لیگی بھی یہی ذکر کر رہے تھے، ان کا موقف ہے کہ وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے تو پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کیا،سہولتیں مہیا کیں، اچھے افسر تعینات کئے اس کے باوجود یہ حضرات محنت اور دیانت سے فرائض انجام نہ دیں تو وہ کیا کریں، حالانکہ وہ چھوٹی چھوٹی بات کا نوٹس لیتے ہیں اور ان کے سیکرٹریٹ میں باقاعدہ ایک سیل اس پر کام کرتا ہے، شکایات بھی سنی جا تی اور ان کو حل بھی کرایا جاتا ہے۔ یہ بالکل درست ہے تاہم یہ فرض تو سی سی پی او سے نچلی سطح تک کے افسروں کا ہے کہ وہ نگرانی کریں۔ کم از کم ایس پی اور ڈی ایس پی سطح کے افسر تو اپنے اپنے علاقے کے تھانوں کا دھیان رکھ سکتے ہیں۔
ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ ایک اور قسم کی شکایت سامنے آئی وہ شہریوں کی موٹر سائیکلوں اور کاروں کے ساتھ کی جانے والی وارداتیں ہیں، چوری شدہ موٹر سائیکل یا کار برآمد(خوش قسمتی سے) ہو جائے تو تھانے میں آتی اور مالک کو اطلاع بھی دے دی جاتی ہے تاہم جب مالک اپنی سواری لینے تھانے پہنچتا ہے تو وہاں چلنے والی موٹر سائیکل اور کار کا ڈھانچہ نظر آتا ہے کہ تھانے والے حضرات اپنی اپنی پسند کے پرزے اور اشیاء اتار چکے ہوتے ہیں۔ یوں مالک سر پیٹ کر رہ جاتا ہے اگر تکرار کرے تو اسے دوسری نوعیت کے مسائل میں اُلجھا لیا جاتا ہے اور اسے مدعی کی جگہ ملزم بن کر جان چھڑانا مشکل ہو جاتی ہے اور وہ تھانے کی حاضری کے ساتھ ساتھ جیب بھی ڈھیلی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ سب تھانہ کلچر کی تبدیلی کے دعوؤں میں ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ کو پھر سے توجہ دینا ہو گی۔