سول ملٹری تعلقات
فوج پاکستانیوں کے حواس پر چھائی ہوئی ہے ۔ عام تاثر ہے کہ عمران خان اپنی احتجاجی سیاست کا انجام فوج کی مداخلت پر کریں گے ، یہ تبصرہ بھی زباں زد عام ہے کہ عمران خان کسی اشارے پر سارا کچھ کر رہے ہیں، پیپلزپارٹی کے مولا بخش چانڈیو نے پوچھا ہے کہ آیا عمران خان سے احتجاجی سیاست کے عوض کسی انعام کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ خود عمران خان نے مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے الزام لگایاہے کہ ان کے احتجاج کے دوران فوج دہشت گردوں کی مدد سے اسلام آباد پر حملہ آور ہونے جا رہی ہے ۔ غرضیکہ فوج کے بارے میں اتنا کچھ کہا جا رہا ہے کہ ایک لمحے کو خیال آتا ہے کہ فوج کو تو آپریشن ضرب عضب میں ہی مصروف رہنا چاہئے تھا ۔مولانا سمیع الحق سے ایک مرتبہ سوال ہوا تھا کہ تاثر یہ ہے کہ فوج آپ کے پیچھے ہے۔ انہوں نے جل کر جواب دیا تھا کہ جب دیکھو کہا جاتا ہے کہ فوج ہمارے پیچھے ہے،مَیں پوچھتا ہوں کہ فوج ہمارے آگے کیوں نہیں ہے !اب یہی کچھ عمران خان کے بارے میں سنا جا رہا ہے ، بلکہ یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ ان کے پیچھے تو مولانا سمیع الحق بھی ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آخر فوج موجودہ حکومت کے اس طرح درپے کیوں ہو سکتی ہے،آخر کس بات پر فوج وزیراعظم نواز شریف سے اس قدر نالاں ہے کہ اچھے برے کی تمیز بالائے طاق رکھ کر لٹھ لے کر ان کی تلاش میں نکلنے کو تیار ہے۔ پراپیگنڈ ہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف جس قدر شدومد سے مدت ملازمت میں توسیع سے انکاری ہیں،فوج بحیثیت ادارہ اسی شدو مد سے حکومت کو فارغ کرنے جا رہی ہے۔
حکومت مخالف حلقوں کے پاس فوجی مداخلت کے سو جواز ہیں جبکہ حکومت اور اس کے حامی حلقوں کے پاس فوج کو روکنے کا ایک بھی طریقہ نہیں ہے ، اب یہ فوج پر منحصر ہے کہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔عمران خان کبھی امپائر کی انگلی کا ذکر فخر سے کرتے تھے، آج انہیں اسی انگلی کا طعنہ بڑی ندامت سے سننا پڑتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ دو نومبر کو اسلام آباد بند کرکے رہیں گے،حالانکہ حکومت کے پچھلے 42مہینوں میں سول ملٹری تعلقات ایسے برے بھی نہیں رہے کہ اگلے 18مہینے اکٹھے نہ چل سکیں ۔ کہا جاتا ہے کہ فوج کے فیصلے آرمی چیف کرتا ہے۔ جنرل مشرف کہا کرتے تھے کہ فوج میں Unity of Commandکا تصور ہوتا ہے اور ایک ہی شخص پوری فوج کے برے بھلے کا ذمہ دار ہوتا ہے،لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی فوج نے جنرل ضیاء الدین کو فور سٹارز لگ جانے کے باوجود قبول نہیں کیا تھا ۔ اس کا مطلب ہے کہ فوج میں ریموٹ کنٹرول نہیں لابیاں کام کرتی ہیں۔جنرل مشرف کو جنرل ضیاء کی لابی کا سامنا تھا، جنرل راحیل کو جنرل مشرف کی لابی کا سامنا ہے!آج فوج کی ایک لابی اسی طرح اقتدار میں آنے کے لئے بے تاب ہے،جس طرح جنرل مشرف کے دورکے آخر میں اقتدار سے جانے کے لئے پریشان تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ فوج کا آنا جانا لگا رہے گا، نہ آئے تو ہم پکارنے لگتے ہیں، نہ پکاریں تو وہ ہماری جانب دیکھنا شروع کردیتی ہے ، چونکہ فوج عوام کی نظر میں اچھی رہنا چاہتی ہے اِس لئے اسے ہماری آواز کی ضرورت پڑتی ہے ۔
فوج کی بے جا مداخلت کی وجہ سے ہمارے سیاست دانوں کو اکثر اپنی صلاحیتوں کا کھل کر مظاہرہ کرنے کا موقع نہیں مل سکا ہے ۔ تصور کیجئے کہ اگر 1977ء میں فوج نہ آتی تو کیا ذوالفقار علی بھٹو اپوزیشن کے قومی اتحاد پر قابو پا لیتے ، ایسا ممکن تھا، کیونکہ اپوزیشن کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو حکومت وقت سے زیادہ طاقتور نہیں ہوتی ،جہاں کہیں اپوزیشن کو کسی غیبی طاقت کی شہہ مل جائے وہیں پر ممولا شہباز سے لڑ بھڑتا ہے ۔ نوے کی پوری دہائی میں فوج کی بالواسطہ مداخلت ہوتی رہی۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے فوج نے منتخب حکومتوں کو آن واحد میں گھر بھجوایا، اس وقت فوج بلاشبہ اقتدار کی بلا شرکت غیرے مالک تھی۔ نوے کی دہائی کا تجربہ بہت تلخ ہے ، اِسی لئے نواز شریف پچاس، ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی کے سیاست دانوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہے ہیں،کیونکہ جتنا انہوں نے فوج کو ہینڈل کیا ہے، شائد ہی کسی اور سیاست دان نے کیا ہو۔ تبھی تو جب جنرل مشرف نے فیصلہ کیا حکومت کا تختہ اُلٹنا ہے، تو نوا زشریف نے جوابی کارروائی کردی تھی، فرق یہ ہے کہ ان کے پاس مسلح ملیشیا نہ تھی ، اِس لئے مار کھا گئے ۔ گزشتہ 42مہینوں میں سول ملٹری تعلقات مثالی رہے نہ بدتررہے۔ فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے فوج کے اندر اس لابی کی نہیں چلنے دی جو حکومت کو چلتا کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ اس کے برعکس انہوں نے دونوں طرف توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ سول ملٹری بیوروکریسی کی ایک لابی نے تسلسل کے ساتھ صرف اس بات پر کام کیا ہے سول حکومت کو کمزور رکھا جائے ،اس کی رٹ اسٹیبلش نہ ہونے دی جائے اور اپنی جڑوں کو مضبوط رکھا جائے۔
اس بات کو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی کے ہوتے سول ملٹری تعلقات کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتاان کا کام آرمی سے تعلقات استوار کئے رکھنا ہے ، اس سے قطع نظر کہ آرمی چیف کون ہے ۔ ان دو صاحبان نے فوج کے اندر اپنا ایک حلقہ اثر بنا رکھا ہے ، ان کے ذاتی تعلقات ہیں اور ایسا بھی لگتا ہے کہ یہ دونوں فوجیوں سے صلاح مشورہ بھی کرتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کا جرنیلوں سے تعلق مثالی نہیں رہا ہے،ان کے کریڈٹ میں سوائے جنرل ضیاء الحق اور جنرل جیلانی کے اور کوئی تیسرا نام نہیں ہے ، دوسرے لفظوں میں نواز شریف نے ایک خاص حد سے آگے فوج سے تعلقات نہیں بنائے ہیں، جبکہ شہباز شریف ہر حد سے آگے کے تعلقات بنا سکتے ہیں۔ دونوں کا کمفرٹ زون علیحدہ ہے اور دونوں اپنے اپنے زون میں مطمئن ہیں۔ پچھلے 42ماہ میں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی نے کمال ہوشیاری کے ساتھ فوج کو رام کئے رکھا ہے ، وہ رات کی تاریکی میں بھی جی ایچ کیو جاتے رہے ہیں اور دن کے اُجالے میں بھی گئے ہیں ۔وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ وہ فوج کے سیاسی رول کو خاطر میں نہیں لاتے ۔اسی لئے کنونشن سنٹر اسلام آباد میں نواز شریف کی تقریر ’میں نہیں مانتا ‘کی تکرار تھی جبکہ ایکسپو سنٹر لاہور میں شہباز شریف کی تقریر ’’کرپشن فری کردار‘‘کو منوانے سے متعلق تھی۔ دونوں کا مخاطب ایک ہی تھا، لیکن اپروچ مختلف تھی ۔
آخر نواز شریف کا فوج سے تعلق کیونکر استوار نہیں ہو سکا ہے ؟ ایسا کیوں کہا جاتا ہے کہ ان کے اور فوج کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں ؟ آخر فوج سے ان کو ایسی کیا پرخاش ہے، جو شہباز شریف کو نہیں ہے ؟ اور اگر نواز شریف فوج کو قبول نہیں ہیں تو فوج کیونکرانہیں اقتدار میں آنے دیتی ہے ۔ پچھلے ساڑھے تین برسوں سے سول ملٹری تعلقات کی داستاں بس اتنی ہے کہ نواز شریف نامنظوراور شہباز شریف منظور، لیکن عوام کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ شہباز شریف میٹرو بس کے ٹریک پر اپنے کندھوں پر اُٹھا کر بھی شاہدرہ سے گجو متہ چھوڑ آئیں ، عوام ووٹ نواز شریف کو ہی دیں گے۔ مقدر اسی کا نام ہے، جس سے مفر ممکن نہیں،چنانچہ ایک عمران خان ہی کیا اگر آصف علی زرداری بھی نواز شریف کے خلاف فوج کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور امریکہ بھی آمادگی دے دے، لیکن اگر کو منظور نہ ہوتو نواز شریف کو کچھ نہیں ہوگا ، چاہے، عمران خان مزید 126دن بیٹھے رہیں یا 2026ء تک بیٹھے رہیں۔ اب جب کہ عوام کی بڑی تعداد ابھی بھی نواز شریف کے ساتھ ہے ، اس کی پارٹی نے اسے دوبارہ سے صدر منتخب کرلیا ہے ، پارلیمنٹ میں اس کی اکثریت ہے تو ایک اسلام آباد کی چند سڑکوں کو بند کرنے سے فوج کو کیونکر یہ جواز مل سکتا ہے کہ وہ اِس لئے نواز شریف کو اقتدار سے اُتار دے کہ اس کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے، عوام میں اکثریت ہے اور مقدر میں کثرت ہے۔ عمران خان دو نومبر کو دھرنا دیں یا سو نومبر کو اسلام آباد بند کریں ، ان کے بل بوتے پر اگر فوج حرکت میں آتی ہے اور آمریت کا نفاذ کرتی ہے تو ایسی فوج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں الجھے رہنا چاہئے تاکہ جمہوریت محفوظ رہے۔