احتجاج اور مظاہروں کی حدود و قیود
لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس عباد الرحمن لودھی نے شاہراہِ قائداعظمؒ (مال روڈ) پر جلسے جلوسوں پر پابندی کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کے خلاف لئے گئے ازخود نوٹس کیس میں ڈی سی او لاہور کیپٹن عثمان، ڈی آئی جی حیدر اشرف، سی سی ٹی او لاہور طیب حفیظ چیمہ کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ عدالت نے تینوں افسروں کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی جواب طلب کر لیا۔2نومبر 2011ء کو لاہور ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ لاہور میں باالخصوص مال روڈ پر ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں ،مال روڈ پر ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہ دی جائے ،حکومت کو دیگر متمدن ممالک کی طرح احتجاج کے لئے شہریوں کو متبادل جگہ فراہم کرنی چاہیے جہاں وہ اپنے احتجاج کے حق کو استعمال کرسکیں ،عدالت نے 2نومبر2011ء کو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ احتجاج کے لئے ضابطہ اخلاق تشکیل دیں تاکہ شہریوں کے سفر اور جان و مال کے تحفظ کے آئینی حقوق پامال نہ ہوں ۔عدالت نے اپنے اس فیصلے میں یہ بھی حکم جاری کیا تھا کہ لوگوں کے سفر ، نجی جائیدادوں اور تجارت میں مخل ہونے والوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے ۔اس عدالتی حکم کی نقل مناسب اقدامات کے لئے وزیراعلیٰ کو بھی بھجوائی گئی تھی ،از خود نوٹس کیس میں اسی لئے وزیراعلیٰ سے جواب طلب کیا گیا ہے کہ انہوں نے 2011ء کے عدالتی حکم پر عمل درآمد کے لئے اب تک کیا اقدامات کئے ہیں ؟
لاہور ہائی کورٹ نے شاہراہِ قائداعظمؒ پر جلسے جلوسوں پر پابندی کا حکم مال روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کی درخواست پر دیا تھا درخواست میں جن کا موقف تھا(اور اب بھی ہے) کہ آئے روز کے جلسے جلوسوں سے اُن کا کاروبار بُری طرح متاثر ہوتا ہے،اِس لئے اِس اہم شاہراہ پر جلوس نکالنے اور جلسے کرنے پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ عدالت نے اس موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے حکم جاری کر دیا،لیکن سالہا سال سے اِس حکم پر کبھی اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہو سکا،جلسے کرنے اور جلوس نکالنے والے ڈنکے کی چوٹ پر اس سڑک پر آ دھمکتے ہیں اور عین سڑک کے درمیان بیٹھ کر نہ صرف پوری سڑک کی ٹریفک بند کر دیتے ہیں،بلکہ اِس کی وجہ سے پورے شہر میں ٹریفک جام ہو کر رہ جاتی ہے، شہر کی بڑی بڑی ملحقہ سڑکیں بند ہو جاتی ہیں اور بدترین ٹریفک جام کی وجہ سے لوگوں کو ناقابلِ برداشت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شاہراہِ قائداعظمؒ پر گورنر ہاؤس،لاہور ہائی کورٹ، سٹیٹ بینک آف پاکستان، جی پی او، پنجاب یونیورسٹی(اولڈ کیمپس) اور اس سے ملحقہ جی سی یونیورسٹی، ٹاؤن ہال، الحمراء آرٹس کونسل، ملحقہ علاقے میں سٹاک ایکسچینج بلڈنگ، پنجاب اسمبلی، نیشنل کالج آف آرٹس، دوسرے تعلیمی ادارے، پنجاب پبلک لائبریری، ملحقہ علاقے میں بورڈ آف ریونیو، آئی جی پولیس اور اِس کے علاوہ درجنوں اہم دفاتر، بینک، کاروباری ادارے، ریستوران،فور سٹار ہوٹل اور ایسے کاروباری ادارے واقع ہیں، جن کا کاروبار جلسوں اور جلوسوں سے بُری طرح متاثر ہوتا ہے، ہزاروں لوگ براہِ راست اور لاکھوں لوگ بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ان سب پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھ کر ہی ہائی کورٹ نے جلوسوں پر پابندی کا حکم جاری کیا تھا،لیکن آج تک اِس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
فاضل جج نے تو از خود نوٹس میں صرف انتظامی افسروں کو ہی طلب کیا ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ اُن کا موقف عدالت میں کیا ہوتا ہے اور وہ حکم پر عمل درآمد کرانے میں ناکامی پر اپنی کیا مجبوریاں ظاہر کرتے ہیں اور اِس بات کا اُن کے پاس کیا جواز ہوتا ہے کہ پچاس لوگوں کو بھی کنٹرول کرنا پولیس فورس کے لئے ممکن کیوں نہیں ہوتا؟ ہم اِس مسئلے پر وسیع تر تناظر میں اظہارِ خیال کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ صرف ایک سڑک اور ایک شہر کا مسئلہ نہیں، ہر شہر ،ہر صوبے اور بڑی حد تک پورے مُلک کا مسئلہ ہے، ہمارے علم میں نہیں کہ جس طرح لاہور ہائی کورٹ نے مال روڈ کو جلسوں اور جلوسوں کے لئے ممنوعہ علاقہ قرار دے رکھا ہے،پورے مُلک میں کوئی اور سڑک بھی ایسی ہے کہ نہیں، جس کے لئے کسی عدالت نے ایسا حکم دے رکھا ہو،لیکن اکثر بڑے شہروں اور بڑی سڑکوں پر اِسی نوعیت کا مسئلہ موجود ہے، پچھلے دِنوں تحریک انصاف نے کراچی کی شاہراہِ فیصل کو کئی گھنٹوں کے لئے بند کر دیا تھا، جس کی وجہ سے شہر بدترین ٹریفک جام کا شکار ہو گیا، ہزاروں لوگ گھنٹوں تک ٹریفک میں پھنسے رہے،جن میں ایمبولینس گاڑیاں بھی شامل تھیں۔ شاید ایک مریض اِس ٹریفک جام کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گیا تھا، سینکڑوں لوگ ائر پورٹ نہیں پہنچ سکے اور اُن کے جہاز چھوٹ گئے، جن میں غیر ملکی بھی شامل تھے۔اِس واقعہ کے بعد سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے حکم جاری کیا تھا کہ آئندہ شاہراہِ فیصل کو کسی صورت بند نہیں ہونے دیا جائے گا، اُن کا فیصلہ تو اچھا تھا،لیکن معلوم نہیں اُنہیں اِس میں کامیابی حاصل ہوئی یا نہیں۔ البتہ 18 اکتوبر کو ان کی جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو کی ریلی کیلئے یہ شاہراہ کئی گھنٹے تک بند کردی گئی تھی ظاہر ہے ٹریفک جام بھی ہوا ہوگا۔ وزیراعلیٰ خود اس ریلی میں شریک تھے معلوم نہیں ان کے احساسات اس موقع پر کیا تھے۔ ہم سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں کہ چند لوگ کسی خاص جگہ پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور پورے شہر کی ٹریفک معطل ہو کر رہ گئی، گورنر ہاؤسوں اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسوں کے باہر بھی احتجاجی دھرنے دیئے جاتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے احتجاجی سلسلے اِس حد تک بے لگام آخر کیوں؟اور احتجاج کا مطلب یہ کیوں سمجھ لیا گیا ہے کہ ٹریفک ضرور معطل ہو گی اور بے گناہ اور بے قصور لوگوں کو عذاب میں ضرور مبتلا کیا جائے گا۔ یہ سب احتجاج جمہوری حقوق کے نام پر کئے جاتے ہیں اور ان میں بنیادی بات نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ کوئی سڑک بند کر دینا اور سڑک استعمال کرنے والوں کو گزر نے سے روک دینا کہاں کا بنیادی حق ہے؟ اور دُنیا کا کون سا اصول اور ضابطہ ہے جو چند لوگوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ جب چاہیں جہاں چا ہیں سڑک بند کر دیں،لیکن ہزاروں لاکھوں لوگوں کو عملاً اُن کے آزادی سے چلنے پھرنے کے حق سے محروم کر دیتا ہے ۔لاہور کی مال روڈ کو ہمیشہ ہی تختۂ مشق بنایا گیا۔ گزشتہ دو ڈھائی ماہ کے دوران دو سیاسی جماعتوں نے خاص طور پر اس سڑک پر توجہ فرمائی اور غیر قانونی جلسہ اور ریلی نکالنے سے پہلے اعلان کیا کہ اگر اُنہیں روکا گیا تو یہ حکومت کے لئے اچھا نہیں ہو گا۔ کیا حکومت کے کسی اعلیٰ یا ادنیٰ عہدیدار نے اِن دھمکیوں کا کوئی نوٹس لیا اور دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ کسانوں کو بھی اپنے گلے سڑے آلو پیاز اور ٹماٹر بکھیرنے کے لئے یہی سڑک پسند آئی، کسانوں نے یکے بعد دیگرے اِس سڑک پر احتجاج کیا۔ ہائیکورٹ نے احتجاج کیلئے جو متبادل تجویز کئے ہیں کیا سیاسی جماعتیں اسے ماننے کیلئے آمادہ ہیں؟ کیونکہ اب تک تو یہی دیکھنے میں آیا کہ حکومت نے احتجاج کرنے والوں کو اگر کوئی متبادل مقام تجویز کیا تو انہوں نے بیک قلم مسترد کردیا۔
2014ء کے ماہِ اگست میں پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں76دن اور تحریک انصاف نے126 دن کا دھرنا دیا تھا، اِس دوران پانی کی مین پائپ لائن کاٹ کر لوگوں نے برسر عام کپڑے دھونے شروع کر دیئے اور یہ دُھلے ہوئے کپڑے سپریم کورٹ بلڈنگ کی بیرونی ریلنگ پر سوکھنے کے لئے پھیلا دیئے، احتجاج کرنے والوں کا ایک گروپ پارلیمینٹ بلڈنگ کے سبزہ زار پر بھی کئی دن تک قابض رہا اور دھرنے والوں کے لیڈر نے برملا اعلان کیا کہ ارکان پارلیمینٹ کو نہ تو اندر جانے دیا جائے گا اور نہ باہر نکلنے دیا جائے گا، اِس پر عمل بھی ہوا۔ ارکانِ اسمبلی ایوانِ صدر کے راستے سے پارلیمینٹ ہاؤس جاتے رہے۔ مظاہرین نے ایوانِ صدر،وزیراعظم ہاؤس اور سپریم کورٹ جانے کے راستے بھی بند کر دیئے، فاضل ججوں کو بھی متبادل راستہ اختیار کرنا پڑا، پی ٹی وی کی عمارت پر تو باقاعدہ قبضہ کرلیااور آدھ گھنتے تک نشریات معطل رہیں۔ دھرنے والوں نے اِس احتجاج سے کیا حاصل کیا آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ نہ کسی نے بتانے کی کوشش کی، دھرنے کے مربیّوں نے بھی آج تک نہیں بتایا کہ ملک و قوم اور دھرنے کے منتظمین نے اس سے کیا کمایا؟
اب پھر دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے اعلان ہو رہے ہیں، ایک لیڈر صاحب فرما رہے ہیں، سڑکیں، ائر پورٹ، ریلوے سٹیشن اور گاڑیاں بند کر دی جائیں گی۔ اگرچہ حکومت یہ اعلان تو کر رہی ہے کہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا،لیکن جو لوگ دھمکی آمیز بیان دے رہے ہیں اُنہیں کھلی چھٹی کس بنیاد پر دی جا رہی ہے؟کیا ہر سیاست دان کا یہ حق ہے کہ وہ لوگوں کے راستے بند کرنے کی کھلی دھمکیاں دیتا پھرے یا یہ اعلان کرے کہ سرکاری دفاتر میں کسی کو آنے جانے نہیں دیا جائے گا اور حکومت اسے کچھ نہ کہے معاملہ عدالت جائے تو جواب تو حکومت سے ہی طلب کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حکومت کو عوام کے سامنے بھی اپنا موقف رکھنا چاہئے۔ اسلام آباد کی کسی اعلیٰ عدالت نے ان اعلانات کا ازخود نوٹس بھی نہیں لیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج نے بھی ازخود نوٹس اِس لئے لے لیا کہ عدالتی حکم کے تحت لاہور کی مال روڈ پر جلسوں اور جلوسوں کی مستقل ممانعت ہے،لیکن اسلام آباد کی انتظامیہ بھی تو شہر بند کرنے کے اعلان کرنے والوں کو کوئی عملی جواب دے۔یہ واضح کر دینا چاہئے کہ راستے اور شہر بند کرنا کسی کا کوئی بنیادی یا جمہوری حق نہیں ہے، کسی کے احتجاج کا حق چند شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے، جب یہ حق دوسروں کے حقوق کو متاثر کرتا ہے تو خودبخود ساقط ہو جاتا ہے، کیا حکومت اِس سلسلے میں کوئی ایسا عملی اقدام کرے گی، جس سے لاکھوں لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہو۔