پاناما لیکس کیس ، فیصلے تک احتجاج روکنے کی تجویز آئی تو عمران خان یقین دہانی کرانے سے انکار کردیں گے
تجزیہ : -سعید چودھری
چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے بنچ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت کے لئے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کردی ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد دھرنے سے ایک روز قبل اس کیس کی تاریخ سماعت مقرر کئے جانے کے حوالے سے مختلف نوعیت کی چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں ۔کیا اس کیس کی شنوائی تحریک انصاف کے 2نومبر کے دھرنا پر اثر انداز ہوسکتی ہے ؟اوریہ کہ یکم نومبر کو کیس کی سماعت کے دوران کون سے معاملات زیربحث آنے کا امکان ہے ۔کیا سپریم کورٹ فریقین کو پاناما لیکس کے معاملہ پر کیس کے حتمی فیصلے تک خاموشی اختیار کرنے کا حکم دے سکتی ہے ؟ آئینی طور پر سپریم کورٹ کو مقدمہ کے فریقین کے ہر اس اقدام پر پابندی لگانے کا اختیار حاصل ہے جسے عدالت سمجھے کہ اس سے عدالتی کارروائی متاثر ہوسکتی ہے ۔ایسی بیان بازی اور احتجاج پر توہین عدالت کی کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے جس کے بارے میں فاضل جج خیال کریں کہ یہ مقدمہ کی شنوائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے ۔ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں جب عدالت سے باہر بیان بازی کا جج صاحبان نے نوٹس لیا ۔پرویز مشرف کے دور حکومت میں لاہور ہائی کورٹ بار نے نیم فوجی عدالتوں کے قانون کو چیلنج کیا تو اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ فلک شیر نے بار کے صدر میاں اسرار الحق سے یقین دہانی حاصل کی تھی کہ کیس کے فیصلے تک وکلاءاحتجاج کا سلسلہ معرض التواءمیں رکھیں گے ۔اگر یکم نومبر کو عدالت فریقین سے ایسی کوئی یقین دہانی طلب کرتی ہے تو عمران خان کی طرف سے خاموشی اختیار کرنے کی یقین دہانی خارج از امکان ہے ۔عمران خان کے وکیل احتجاج کو آئینی حق قرار دیں گے اور موقف اختیار کریں گے کہ وہ پہلے سے ہی دھرنے کی تاریخ کا اعلان کرچکے ہیں ۔عدالتیں عام طور پر زبان بندی کی بابت اپنے اختیار کو استعمال کرنے سے خود کو روکے رکھتی ہیں اوراس سلسلے میں فریقین سے یقین دہانی حاصل کرنے کے راستے کو مناسب خیال کیا جاتا ہے ۔سپریم کورٹ اپنے آئینی اختیارات کے تحت زیرنظر کیس میں تحقیق طلب معاملے کی انکوائری کے لئے کمشن مقرر کرنے کے علاوہ کسی سرکاری ادارے سے بھی یہ کام لے سکتی ہے ۔تحریک انصاف کا موقف ہی یہ ہے کہ سرکاری ادارے صحیح کام نہیں کررہے اس لئے وہ کسی سرکاری ادارے کو پاناما لیکس کی انکوائری سونپنے کی مخالفت کرے گی ۔دوسری طرف حکومت اور دیگر مدعاعلیہان کی کوشش ہوگی کہ عمران خان سمیت دیگر شخصیات کی طرف سے دائر کی گئی ان درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دلوایا جائے ،اس سلسلے میں ان کا موقف ہوگا کہ درخواستوں میں کوئی فیصلہ طلب قانونی نکتہ موجود نہیں ہے ۔دوسرا یہ کہ عدالت کسی بنیادی حق کے معاملے میں اسی وقت مداخلت کرسکتی ہے جب انتظامیہ اس پر خاموش ہو ،پاناما پیپرز کے معاملہ پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کارروائی کررہا ہے اوراس سلسلے میں متعلقہ لوگوں کو باقاعدہ نوٹس بھی جاری کئے جاچکے ہیں ۔مدعاعلیہان سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں کی نیک نیتی پر سوال اٹھا سکتے ہیں اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان صاف ہاتھوں سے عدالت میں نہیں آئے ،ان کے اپنے خلاف آف شور کمپنی بنانے کا الزام ہے ۔عدالت کی طرف سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے کمشن یا لوکل کمشن قائم کرنے کی تجویز سامنے آنے کا امکان بہت کم ہے اگر اس بابت سپریم کورٹ کی طرف سے استفسار کیا بھی گیا تو حکومت اس کی مخالفت کرے گی جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے کمشن کے قیام کا خیر مقدم کئے جانے کا غالب امکان ہے ۔شہناز اختر کیس میں سپریم کورٹ خود قرار دے چکی ہے کہ تحقیقات کرنا عدالتی کام نہیں بلکہ یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ۔علاوہ ازیں ایسی عدالتی نظائر بھی موجود ہیں کہ تحقیقات کرنے والا ادارہ خود معاملے کا فیصلہ نہیں کرسکتا ۔عدالت اگر اس معاملے کی خود تحقیقات کرتی ہے تو پھر وہ اس میں منصف کا کردار کیسے ادا کرے گی ؟عدالت اس کیس میں کیا حکم جاری کرتی ہے ،مقدمہ کی کارروائی کیسے آگے بڑھاتی ہے اور مذکورہ سوالات عدالت کے سامنے آتے ہیں تو ان کا حتمی جواب یکم نومبر کو ہی ملے گا تاہم یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فریقین عدالت میں کیا موقف اختیار کرنے والے ہیں ۔