روہنگیا مسلمانوں کا وحشیانہ قتلِ عام

روہنگیا مسلمانوں کا وحشیانہ قتلِ عام
 روہنگیا مسلمانوں کا وحشیانہ قتلِ عام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک اور کہانی۔۔۔ وہشت، درندگی اور سفاکیت شاید یہ الفاظ بھی اِس ظلم کا احاطہ نہ کر پائیں،جس ظلم کو روہنگیا مسلمان اِن دنوں برما میں برداشت کر رہے ہیں۔

یہ وہ واحد قوم ہے جس کے پاس کوئی قومیت نہیں بس وہ سب سے مددہی کی درخواست کر رہے ہیں۔۔۔آٹھویں صدی سے روہنگیا، میا نمار میں ایک نسلی اقلیت ہیں،جنہیں سرکاری طور پر میا نمار حکومت کی طرف سے شہریوں کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، جبکہ روہنگیا مسلمانوں کو زبردستی یہاں سے نکالا جا رہا ہے۔

عورتوں ، مردوں یہاں تک کہ بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ اِن پر تشدد کرنے والے اور کوئی نہیں،بلکہ بدھ مت اکثریت ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچانے کے لئے بنگلہ دیش میں داخل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں اور یہ مسلمان کھلے آسمان تلے زمین پر بھوکے پیاسے پڑے ہیں۔

اقوام متحدہ نے روہنگیا اقلیت کے لئے پوری شہریت کے برابر مساوات کا مطالبہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق میانمار نے روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے کی منظوری سے انکار کر دیا۔ میانمار حکومت کا کہنا ہے کہ اگر وہ بنگالین کے طور پر خود کو شناخت کراتے ہیں تو ہم اِن کو شہریت دینے کو تیار ہیں۔مسلمانوں کے گھر جلائے جارے ہیں اور بے دریغ قتل کیا جارہا ہے۔

اس سارے تشدد اور قتل عام کے پیچھے بدھ مت کا رہنما آیشن وراتھو ہے، جس نے روہنگیا مسلمانوں کو قتل کرنا سیاسی اور مذہبی طور پر جائز قرار دیا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ قتل کرنے کے سات طریقے بھی بتائے ہیں۔

اِن طریقوں پر برمی صرف عمل نہیں کر رہے، بلکہ برمی فوج بھی عمل درآمد کررہی ہے۔ یہ تشدد تقریباً 12 سال سے ہوتا آرہا ہے، مگر 2017ء میں اِس نے تیزی پکڑی ہے۔ دن بہ دن تشدد اور انتہا پرستی برما میں بڑھتی جارہی ہے۔ برما کے حالات سے ہم سوشل میڈیا کی وجہ سے واقف ہیں، ورنہ کسی بین الا قوامی صحافی کو بھی برما میں داخلے کی اجازت نہیں، دنیا بھر میں سب لوگ اِس مسلسل بحران پر مختلف رائے رکھتے ہیں، جبکہ میانمار کے روہنگیا تنازعات کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے، بعض لوگ اِ س بحران کو سیاسی اور اقتصادی طور پر دیکھتے ہیں۔

بہت سے لوگوں نے میانمار حکومت پر تنقید کرتے ہوئے، روہنگیا مسلمانوں پر مسلسل تشدد کے متعلق اظہار سوشل میڈیا پر کیا، جن میں اکثر مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ امیر مسلم ریاستوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مسلمانوں کی حفاظت کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم اور جبرو تشدد انسانیت کے زوال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔روہنگیا مسلمانوں کے یہ حالات دیکھتے ہوئے کسی بھی پڑوسی مُلک نے انہیں پناہ نہیں دی۔ روہنگیا مسلمانوں کے لئے سب سے پہلے آواز اٹھانے والا مُلک ترکی ہے۔


ترکی کے صدر طیب اردوان نے جس طرح گفتگو کی ہے، اور جس طرح کے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، اِس کے بعد ایران سامنے آیا، پھر سعودی عرب کا پیغام آیا۔ ترکی نے بنگلہ دیش سے درخواست کی ہے کہ وہ برما کے مسلمانوں کو پناہ دے اور یہ بھی کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے سب اخراجات ترکی خود سنبھالے گا، مگر بنگلہ دیش کی صدر حسینہ واجد نے اِس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا مُلک کی آبادی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہم کسی بھی مسلمان کو اپنی سرحدوں میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔

بنگلہ دیش کے سرحدی محافظین نے بہت سے روہنگیا پناگزینوں کو مُلک میں داخل ہونے کے بعد واپس دھکا دیا۔ دُنیا بھر میں لوگ روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں کیا محسوس کررہے ہیں یہ تو نہیں جانا جاسکتا، مگر ہم پاکستانی قوم ہر دم ہر پل اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہم خود چاہے جس بھی حال میں ہوں، دُنیا کے کسی حصے میں بھی مسلمان بھائی کی روتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔

مُلک بھر میں روہنگیا مسلمانوں کے لئے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے کئی بڑے شہروں کراچی، ملتان اور لاہور میں بہت سی سیاسی اور مذہبی تنظیمیں اور طلبہ احتجاج کررہے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کا دکھ پوری انسانیت کا دُکھ ہے۔۔۔ یہ دُکھ وہ دُکھ ہے، جو ہر دِل نے محسوس کیا ہے۔ پھر چاہے اس دِل کا تعلق ، کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو۔ ہم سب دُعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ روہنگیا مسلمانوں پر رحم فرمائے (آمین)

مزید :

کالم -