چائلڈ لیبر ملکی نظام پرایک سوالیہ نشان
بچے کسی بھی ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ یہی بچے آنیوالے وقتوں میں مستقبل سنوارتے ہیں۔ لیکن کیا محنت کش بچے ہمارا مستقبل سنوار سکتے ہیں؟ محنت کش مزدوربچے سے مراد ہے کہ وہ بچے جن کابچپن چھن جائے۔ جب انکی کھیلنے کودنے کی عمر ہوتو انہیں معاشرے میں کام کرنے پرلگا دیا جائے۔ ایسے بچے میں ذہنی ،جسمانی اخلاقی صلاحیتیں ختم ہوکر رہ جاتی ہیں انکی عزت نفس بھی برقرار نہیں رہتی۔ بچوں کا سکول چھڑوا دیا جاتا ہے۔ بچپن میں ہی ان پر بھاری ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں ۔
چائلڈ لیبر کا آغاز صنعتی معاشرے سے پہلے ہوچکا تھا صنعتی معاشرے کے انقلاب سے پہلے پڑھے لکھے بچوں کی تعداد کم تھی اور بچے ماہی گیری شکار جیسے کاموں میں ماہر تھے۔ 13 سال کی عمر کے بچے بھی کم از کم بالغ لڑکوں کے برابر کام کرتے تھے ۔تب پڑھائی کی اتنی اہمیت نہیں تھی۔ 18 ویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد برطانیہ میں بچوں کا استحصال کیا جانے لگاتھا۔ وکٹورین دور میں تو بچوں سے بہت زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ چھوٹے بچے گھریلو ملازموں کے طور پر کام کرتے تھے اور بچوں کی مزدوری کی اْجرت بھی بالغ مردوں کی اْ جرت سے 10 سے 20 فیصد کم ہوتی تھی لیکن کام ان سے بڑوں کے برابر لیا جاتا تھا۔
20 ویں صدی کے آغاز میں ہزاروں کی تعداد میں بچوں سے شیشہ بنانے کی فیکٹری میں کام لیا جانے لگا ۔ ٹیکنالوجی کے بغیر شیشہ بنانے کا کام ہوتا تھا جس سے بچوں کو آنکھوں اور پھپھڑوں کی بیماری ، کٹ ، جلنے کے نشان کے علاوہ بہت تھکاوٹ ہوجاتی تھی ۔بچوں کو بغیر کسی وقفہ کے لگاتار کام کرنا پڑتا تھا ۔21 ویں صدی میں ٹیکنالوجی کا دور آیا لیکن اسکے باوجود چائلڈ لیبر آج بھی دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہے ۔5 سے 17 سال کا بچہ جو کسی بھی معاشی سرگرمی کیلیے نوکری کررہا ہو وہ چائلڈ لیبر کے زمرے میں شمار ہوتا ہے ۔
بین الاقوامی لیبر تنظیم کے مطابق 2008 میں 5 سے 14 سال کی عمر کے 153 ملین بچے باہر کا کام کررہے تھے ۔پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر حد سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر چائلڈ لیبر میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے ۔1996 کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 10 سال کی عمر سے کم 11 ملین بچے فیکٹریز میں کام کررہے تھے ملک کے ایک چوتھائی بچوں کو زبردستی کام پر جانے کیلیے مجبور کیا گیا۔ حیدرآباد میں ہی 4 سے 5 سال کے بچوں کو بریسلٹ اور چوڑیاں بنانے پر لگایا جاتا ہے اور انکو اْ جرت بھی محنت کے مطابق نہیں دی جاتی ،نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورے ملک میں چائلڈ لیبر ناسور بن کر ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کررہا ہے ۔اعدادو شمار کے مطابق 1.96 ملین بچے انڈسٹری میں کام کرتے پائے گئے اور 48 فیصد لڑکیاں سروس انڈسٹری میں کام کرتی پائی گئیں جبکہ 22 فیصد لڑکیاں دیہاتی علاقوں میں مختلف کاموں سے منسلک تھیں ۔
چائلڈ لیبر ملتان میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے پنجاب میں اینٹ کے بھٹوں میں بچے کام کرتے ہیں۔ انڈیا میں چائلڈ لیبر کی تعداد 44 ملین سے تجاوز کرچکی ہے پاکستان میں 5 سے 14 سال کی عمرکے 40 ملین ،بنگلہ دیش میں 12.8 ملین اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح بہت کم ہے۔ چائلڈ لیبر کی بہت سی وجوہات ہیں ان میں سے سب سے بڑی وجہ غربت ہے ۔پاکستان میں شرح خواندگی ویسے بھی بہت کم ہے اور غربت کی وجہ سے والدین کے پاس سہولتیں نہیں ہوتیں کہ وہ بچوں کو پڑھا سکیں۔ ساری دنیا ہی اس لعنت سے نمٹنے کی سعی کررہی ہے ۔لیکن پاکستان میں معاشی بدحالی سہولیات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے چائلڈ لیبر جیسے ناسور کو جنم دے رکھا ہے ۔غربت کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کی تعلیمی ذمہ داریاں نہیں اْ ٹھا سکتے ۔انہیں گھر کے خرچے کیلیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے جسکی وجہ سے بچوں کو مجبوراً کام کرنا پڑتا ہے یا والدین زبردستی بچوں کو کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بچوں کو کام کی جگہ پر تشددکا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ اس کی بازگشت عدالت عالیہ میں بھی سنی جاچکی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ کرے اور بنیادی حقوق فراہم کرے اور ہر ایک کو اسکی صلاحیتوں کے مطابق کام مہیا کرے۔ آئین کے آرٹیکل ( 3)11 کے مطابق 14 سال سے کم عمر کے بچے کو کسی بھی فیکٹری یا کان کنی کے کام میں یا کسی بھی طرح کے خطرناک کام میں ملوث نہیں کیا جاسکتا آرٹیکل A ) 25 ) کے مطابق ریاست کا فرض ہے وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے ہر بچے کو فری اور لازمی تعلیم دے ۔آرٹیکل 37 (C) کے مطابق ریاست کا فرض ہے کہ وہ کام کی محفوظ جگہ کا تعین کرے گی کہ کہیں کوئی جگہ بچوں اور خواتین کیلیے اگر محفوظ نہیں ہے تو اسکے بارے میں موثر قدم اٹھائے گی۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر بہت سے بل بھی پاس ہوچکے ہیں کہ ملک سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جاسکے جن میں شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ آرڈنیس 1969 ء ایمیلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991، دی بونڈڈ لیبر سسٹم ایبولیش ایکٹ 1992 ،دی پنجاب کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ 1994 ،ایمیلائمنٹ آف چلڈرن رولز 1995 اور دوسرے قوانین شامل ہیں ۔محکمہ محنت و انسانی وسائل کے زیر انتظام مربوط پرجیکٹ برائے خاتمہ چائلڈ لیبر جبری مشقت صوبہ پنجاب کے تمام 36 اضلاح میں کام کررہا ہے جسکا مقصد 5 سے 15 سال سے کم عمر مزدور بچوں کو مزدوری اور جبری مشقت سے نکال کر مفت معیاری تعلیم دلوانا ہے۔
1991 کے چلڈرن ایکٹ کے مطابق کام کرنے کیلیے کم از کم عمر 14 سال جبکہ 18 ویں ترمیم کے مطابق کام کرنے کیلیے بچے کی عمر 16 سال سے زیادہ ہونی چاہیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی جبری مشقت کا خاتمہ کیا جائے ۔ آئین کے آرٹیکل میں مکمل وضاحت کردی گئی ہے۔ اب بچوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے ۔ ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہوکر محنت مزدوری کرنے والے بچوں کیلیے نہ صرف حکومت کو اقدامات کرنے ہونگے بلکہ معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور این جی اوز اور میڈیا کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کریں تاکہ ملک میں خواندگی بڑھنے سے پسماندگی کو ختم کیا جاسکے ۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔