پورنو ویڈیوز، ملک میں تفتیش مکمل کریں!
آج کا اخبار پڑھتے ہوئے جب اس خبر پر نظر پڑی تو پڑھنے کے بعد ساری سیاست بھول کر اس مسئلے پر ہی لکھنے پرمجبور ہو گیا کہ مَیں نے گزشتہ دِنوں ایک سے زیادہ بار اس پر گزارش کی اور سانحہ چونیاں اور قصور کی تفتیش کے حوالے سے کہا تھا کہ ان معصوموں کی اموات(قتل) کو عام تفتیشی انداز میں نہ دیکھا جائے اور پورنو گرافک ویڈیوز کے حوالے سے بھی غور کر لیا جائے کہ دُنیا میں یہ دھندا عروج پر ہے،لیکن ہمارا رویہ وہی ہے کہ ایک چور کو پکڑو اور اردگرد کے تھانوں میں درج درجنوں مقدمات اس کے کھاتے میں ڈال کر باب بند کر دو کہ ایف آئی آر تو گلے سے اتریں اور ایسا ہو بھی رہا ہے،چونیاں میں مقتولین والے مقدمہ میں ایک ملزم گرفتار ہوا تو اب تک تمام گمشدہ بچوں کے قتل اس کے کھاتے میں ہیں،حتیٰ کہ ایک اور نعش اور گمشدگی کا معمہ بھی یہ کہہ کر حل کر لیا گیا کہ مقتول سے اسی ملزم کا ڈی۔این اے میچ کر گیا،چلئے قصہ ختم ہوا، چونیاں سے گم ہو کر قتل ہو جانے والے تمام بچوں کا مقدمہ نمٹ گیا،والدین کو بھی ملزم سے آمنا سامنا کرایا گیا اور وہ سب اسے سرعام پھانسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔یوں ان کو مطمئن کر کے احتجاج کا راستہ بھی بند کر لیا گیا،اللہ اللہ اور خیر سلا!
یہ سب اپنی جگہ تاہم آج جو خبر نظر سے گزری اس نے پھر چونکا دیا،قارئین بھی پڑھ لیں۔خبر کا ماخذ مانیٹرنگ ہے،واشنگٹن اور لندن سے بریک ہوئی ہے،اس کے مطابق”برطانیہ، امریکہ اور جنوبی کوریا کے تفتیش کاروں نے ”ڈارک ویب“ پر موجود بچوں کے ساتھ بداخلاقی پر مبنی ویڈیو کی تحقیقات کر کے اس ویب سائٹ کو بند کر دیا ہے اور مختلف ممالک سے337 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے،جو اس کاروبار سے منسلک پائے گئے،تفتیش کاروں نے ایسے 23مغوی بچوں کو بھی زندہ برآمد کر لیا،جن کے ساتھ برطانیہ، امریکہ اور سپین میں زیادتی کی گئی اور پورنو ویڈیوز بنائی گئیں، دیگر متاثرہ بچوں کی شناخت نہیں ہو سکی۔امریکی اٹارنی جنرل کے مطابق ویڈیوز کے علاوہ لاتعداد پورنو تصاویر بھی سامنے آئیں،جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں،برطانیہ کی سرکاری یجنسی این سی اے کے مطابق بند کی جانے والی ویب سائٹ پر دو لاکھ پچاس ہزار ویڈیوز موجود تھیں اور اب تک معلوم ویڈیوز ویب میں یہ سب سے بڑی ثابت ہوئی۔
اس کا مالک جنوبی کوریا کا شہری جان دو سن بتایا گیا ہے،جسے جنوبی کورین عدالت نے 16ماہ کی سزا دی ہے، جبکہ اس کے خلاف واشنگٹن میں بھی مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جو337افراد گرفتار ہوئے وہ 38مختلف ممالک کے ہیں اور وہ سب اس ویب سائٹ ہی سے منسلک تھے۔ ان ویڈیوز کو پوری دُنیا میں دس لاکھ افراد نے ڈاؤن لوڈ کیا، ڈاؤن لوڈ کرنے والوں اور ویب سائٹ کے درمیان لین دین ڈیجیٹل کرنسی میں ہوتا تھا، جن337 افراد کو گرفتار کیا گیا ان کا تعلق برطانیہ، آئر لینڈ، امریکہ، جنوبی کوریا، جرمنی، سپین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کینیڈا اور چیک ری پبلک سے ہے۔ برطانوی حکام کے مطابق اس نوعیت کے کیس میں پہلی مرتبہ2007ء میں سزا سنائی گئی جو تین سالہ بچی کے ساتھ بداخلاقی پر تھی اور22سال قید کا حکم دیا گیا تھا۔
یہ خبر تھوڑی تفصیل سے لکھ دی کہ ہماری اس بات کا ثبوت ہے کہ چونیاں اور قصور والے معاملہ کو آسان نہ لیا جائے کہ ہر دو مقامات کے وقوعہ سے متعلق ویڈیوز بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کو اس حوالے سے خفت اور مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ انہوں نے ان وقوعہ جات کو اس پیرایہ میں اٹھایا تھا،وہ تو اپنی بات پر مصر رہے تاہم ہم نے صرف یہ گزارش کی کہ قصور والے سانحات کے حوالے سے بعض ملزم جیل میں ہیں اور ان کے خلاف الزام بھی پورنو ویڈیوز بنانے کا تھا اِس لئے ان سے مزید تفتیش کر لی جائے اور چونیاں مقتولین کے بارے میں تفتیش میں بھی اس پہلو کو مدنظر رکھا جائے کہ کہیں ہمارے ملک کے اندر بھی تو یہ کاروبار یا شوق تو شروع نہیں ہو گیا؟اس سلسلے میں اِس امر کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ ملک کے مختلف حصوں سے مسلسل ایسے دِل خراش سانحات کی اطلاعات اور خبریں آتی رہتی ہیں اور سب نابالغ اور معصوم بچوں کے اغوا اور پھر ان کے قتل سے متعلق ہوتی ہیں، اور اکثر کیسوں میں ویڈیوز بھی برآمد ہوئیں،اس کا یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں بھی ویڈیوز اَپ لوڈ ہوتی ہیں اور دیکھی جاتی ہیں،ان کی وجہ سے جذبات بھی مشتعل اور برانگیختہ ہوتے ہیں۔
ہمارے فواد چودھری وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ہیں اور وہ جدید سائنس پر زور دے رہے ہیں،حتیٰ کہ انہوں نے اسلامی مہینوں کے لئے پانچ سالہ کیلنڈر بھی تیار کروا لیا کہ چاند کی رویت کا جھگڑا ہی ختم ہو جائے وہ تو پاکستانی خلا باز بھی تیار کر رہے ہیں،وہ چونکہ وکیل بھی ہیں،اِس لئے ہمیں ان سے یہ توقع ہے کہ وہ ان معاملات میں بھی جدید سائنس کے حوالے سے دخل دیں گے کہ پولیس سائنسی طریق کار کے مطابق تفتیش کرے اور دُنیا بھر سے بھی معاونت لے،تاکہ ان جرائم کے حوالے سے ہر پہلو اُجاگر ہو، صرف اُسی طرح ممکن ہے کہ ان جرائم پر قابو پایا جا سکے۔
ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ ان جرائم کے حوالے سے جو قوانین ہیں،ان پر نظر ڈالی جائے، چونکہ تعزیرات پاکستان ابھی تک انگریز دور والی ہیں اِس لئے امکانی طور پر ان جرائم کے حوالے سے سزا کم ہو گی۔یوں بھی ویڈیوز اور پورنو گرافی کے جرائم نئے ہیں اور شاید ان کے حوالے سے قانون موجود نہیں،لہٰذا اس پہلو پر بھی غور کیا جائے اور موجودہ قوانین تو دیکھ اور پرکھ کر یا تو سزاؤں میں اضافہ کیا جائے یا پھر نئی دفعات شامل کر کے ان جرائم کے لئے بڑی بڑی سزائیں مقرر کی جائیں کہ سائبر کرائمز میں بھی سزائیں کم ہیں۔گزارشات پیش کر دیں،غور حکومت کا کام ہے۔فواد چوھری غور فرما لیں، اب تو وزیراعظم نے بھی نوجوان نسل کے تحفظ کا ذکر کیا تو یہ تحفظ بچپن سے شروع ہونا چاہئے……(نوٹ: معذرت گزشتہ روز کے کالم میں مولانا کوثر نیازی کے میزبان کا نام غلط لکھا گیا، اس کی ذمہ داری قبول، ان کا اسم گرامی تاج نہیں حیات تھا وہ اب دنیا میں نہیں)