کاکولیات
عساکر پاکستان کی ادبی خدمات کی مصنفہ ڈاکٹر طاہرہ سرور نے اردو نثر میں جہاں فیض احمد فیض، کرنل محمد خان، شفیق الرحمن،برگیڈیئر صدیق سالک، ضمیر جعفری اور بے شمار دوسرے مصنفین کا ذکر کیا ہے وہاں بر گیڈیئر صولت رضا کی خدمات کا بھی اعتراف کیا ہے اور ان کی کتاب ”کاکولیات“سے کئی ایک اقتباسات بھی پیش کئے ہیں۔پی ایم اے میں دوران تربیت یہ کتاب ہمیں لائبریری میں سجی نظر تو آئی، لیکن وہاں ستاروں کی گردش کی وجہ سے مکمل پڑھنے کا موقع نہ ملا۔اس وقت ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کتاب کے مصنف سے رابطہ بھی ہو گا،تاہم چند دن پہلے بر گیڈیئر (ریٹائرڈ)صولت رضا نے اپنی نئی کتاب ”غیر فوجی کالم“ بھیجی تو ہم نے پہلے کاکولیات کا مطالعہ مکمل کیا جو پا کستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں زیر تربیت کیڈٹ کی آپ بیتی ہے۔
کاکولیات کے پیش لفظ برگیڈیئر صدیق سالک مرحوم نے لکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ کیپٹن صولت رضا سنگلاخ فوجی زمین سے پھوٹنے والا تازہ چشمہ ہے۔اسی زمین سے پھوٹنے والے کئی چشمے مثلاً فیض احمد فیض، چراغ حسن حسرت، شفیق الرحمان، کرنل محمد خان، اور ضمیر جعفری پہلے ہی دریا اور سمندر بن چکے ہیں۔ پی ایم اے کاکول ایک کٹھالی ہے جہاں کچے لوہے کو پگھلا کر ملک کے دفاعی حصار کے قابل اعتماد ستون تیار کئے جاتے ہیں۔ برگیڈیئر صولت رضا لکھتے ہیں کہ پی ایم اے پہنچنے کے ایک گھنٹے بعد ہی یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ کمیشن کسی سستی چیز کا نام نہیں ہے۔اور اکیڈمی میں بسر ہونے والا ہر لمحہ بڑی بھاری قیمت مانگتا ہے۔بات اگر نقد لین دین کی ہوتی تو ہمارے کچھ رئیس دوست بچ نکلتے، لیکن معاملہ آمنے سامنے والا تھا۔پہلے روز تو واقعی قیامت کی ریہرسل تھی۔ چاروں طرف نفسا نفسی کا عالم تھا پرانے دوست ایک دوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے“۔
کیڈٹس کے مخصوص لباس ڈانگری کی بابت وہ لکھتے ہیں کہ اس کی ”لیگ پاکٹ“ ابھی تعارف کی محتاج ہے۔ کاکول میں کیڈٹ کی ”عمارت نو ساخت“کا آغاز ”رسم ڈانگری پوشی“ سے ہوتا ہے۔ آغاز میں ایک ہی سائز کی ڈانگری سب کے حوالے کر دی جاتی ہے، اب یہ کیڈٹ کی ذمہ داری ہے وہ اپنی وضع قطع اور ڈھانچے کے مطابق ڈانگری کی قطع و برید کروا لے۔لیگ پاکٹ اس قطع و برید سے عاری ہے۔اسے جہاں فکس کر دیا گیا ہے وہاں سے وہ ہل نہیں سکتی۔کچھ ڈانگریاں اپنی لیگ پاکٹ کی وجہ سے کیڈٹس کے لئے وبال جان بن جاتی ہیں، کیونکہ جہاں سے کیڈٹ کے ہاتھ کی رسائی ختم ہو جاتی، وہاں سے نصف ہاتھ آگے لیگ پاکٹ کے آثار نمایاں ہوتے۔ شاؤٹ یوور نمبر صاب کے ساتھ ہی جی سی آفس یا نائٹ کلب میں جانے کی تیاری ذہن کے خانوں میں جگہ بنانا شروع ہو جاتی۔رات کے پہلے پہر میں یہاں سے بلند ہونے والی آوازیں خوابوں میں بھی کیڈٹس کا پیچھا کرتی تھیں۔کچھ کیڈٹس نائٹ کلب کے مستقل ممبر تھے جیسے اقوام متحدہ کے مستقل ممبر ہوتے ہیں۔یہ بات ہمارے کورس میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھی کہ اس کلب کا نام نائٹ کلب کیوں رکھا ہے۔
کیڈٹس کے پاس اس قسم کے تاریخی حقائق کا کھوج لگانے کے لئے وقت بھی نہیں تھا۔لہذا ہر ایک نے نائٹ کلب کی ممبر شپ کو اس کی تاریخ پر ترجیح دی۔ رات کو ڈنر سے فارغ ہو کر سینئر بستروں میں گھس جاتے اور جونیئر رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھ کر اونگھنا شروع کر تے تو کچھ کمروں سے چھن چھن،چھنا چھن کی آواز سنائی دیتی۔یہ نائٹ کلب کے ممبروں کی تیاری تھی۔نائٹ کلب میں لباس اور سامان کے ساتھ ساتھ وقت کی پابندی بھی ضروری ہے۔بصورت دیگر حاضری کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔انسان کی اپنی مٹی سے محبت اس کی فطرت میں ہے وہ جہاں رہتا ہے اس جگہ سے اپنائیت پیدا ہو جاتی ہے اور آخرکار تربیت کا یہ سخت مرحلہ بھی مکمل ہوا۔پاسنگ آؤٹ کے دن جدائی کے خیال نے پریشان کر دیا۔یہ خوبصورت اکیڈمی،پی ایم اے روڈ (جہاں سے کئی شہید، غازی اور نشان حیدر حاصل کرنے والے قدم گزرے تھے)،پی ٹی گراؤنڈ،ڈرل گراؤنڈ، کینٹین، فروٹ شاپ،سٹاف یہ سب ایک ایک کر کے میری نظروں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔پلاٹون کے چہرے یاد آنے لگے۔ان چہروں میں دوستوں کی تلاش کرنے لگا۔کوئی کشمیر جا رہا تھا کسی کو سندھ رپورٹ کرنا تھی۔ایک کے حصے سیالکوٹ آیا تو دوسرا پشاور کا رخ کرنے والا تھا۔کل کے بعد ہم علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے۔جس طرح کسی کلاس کے تمام سٹوڈنٹس کا دوبارہ ملنا مشکل ہوتا ہے۔اسی طرح کسی مکمل پلاٹون کا دوبارہ ملنا بھی محال ہوتا ہے۔ان دنوں پی ایم اے میں دوبارہ سے کورس لیول پر اکٹھے ہونے اور ڈرل کرنے کا ٹرینڈ چلا ہے جو کہ پرانے دوستوں کو ملنے اور یادوں کو تازہ کرنے کا اچھا طریقہ ہے۔
کرنل محمد خان کی”بجنگ آمد“ عسکری ادب میں طنزو مزاح کے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب مذکور کے بعد نئے لکھنے والوں کے لئے طنزو مزاح کا ایک اعلیٰ معیار قائم ہوگیا۔ یعنی جو مصنف اس پائے کی حسِ مزاح سے محروم رہا، اْس کی کتاب کو بھی قبولیت عام ملنا ممکن نہیں، کیونکہ عسکری ادب میں طنزو مزاح پر ہر نئی کتاب”بجنگ آمد“ کی کسوٹی پر پرکھی جائے گی۔ بریگیڈیئر صولت رضا کی کتاب ”کاکولیات“ خوش قسمتی سے اس معیار پر پورا اترتی ہے۔کتاب”غیر فوجی کالم“آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد لکھے گئے کالموں کا مجموعہ ہے، جس میں بھی بریگیڈیئر صدیق سالک مرحوم کے ساتھ ان کی محبت کا عنصر عیاں ہے۔اس کتاب میں ملکی سلامتی، سیاسی اورمعاشرتی امور پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ بریگیڈیئر صولت رضا کا قلم اب بھی رواں ہے اور وہ دو مزید کتابیں لکھ رہے ہیں۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔