امریکی صدارتی انتخاب و عالمی امن
اس وقت پوری دنیا کی نظریں امریکی صدارتی انتخاب پر ہیں، کیونکہ یہ انتخاب جہاں ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے لئے اہم ہے وہاں یہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بھی ہے، کیونکہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں مگر سب سے اہم یہ کہ جس امریکہ کی بنیاد ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دور میں رکھی اور جس انداز سے انہوں نے امریکہ کے مستقبل و سمت کا تعین کیا وہ بہت سے ممالک کے لئے نا صرف سوالیہ نشان ہے بلکہ امریکی شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد ر پبلکن پارٹی کی بجائے ڈیموکر یٹک پارٹی کو اہمیت دینے لگی ہے ابھی تک ڈیموکر یٹک کے جو با ئیڈن کی پذیرائی کا گراف ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے ہیں قدرِ بہتر ہے، جو گزشتہ 47 سال سے امریکی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں ان کو صدر او بامہ کی صدارت کے دوران امریکہ کا نائب صدر رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، مگر اس صورت حال میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا، کیو نکہ گذشتہ انتخابات میں بھی ہیلری کلنٹن کا پلڑا بظاہر بھاری محسوس ہو رہا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹرمپ امریکی عوام کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے،جس کا نتیجہ انتخابی حالات سے بہت مختلف تھا۔ ایک جریدے اکانومسٹ کے مطابق جوبائیڈن کی جیت کا گراف اوبامہ کی جیت کی طرح بہت واضح ہے۔
جیسے جیسے الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے انتخابی سرگرمیوں میں بہت تیزی محسوس کی جا رہی ہے ٹی وی پر پارٹی راہنماؤں کے در میان مباحثوں کا آغاز ہو چکا ہے، عوامی رائے سروے و میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچ رہی ہے،چونکہ امریکی صدارتی انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہوتا ہے، جو اسی سال تین نومبر کو ہو گا تو الیکٹرز کے انتخاب کے بعد ہی الیکٹرز دسمبر میں ملک کے صدر اور نائب صدر کا انتخاب کریں گے۔ اس لئے حالیہ الیکشن امریکی صدر کے انتخاب کا اہم ترین مرحلہ ہے، جو امریکہ کے مستقبل کا فیصلہ کرئے گا۔امریکہ میں الیکٹورل کالج کا جو نظام صدارتی انتخاب کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس میں ہر ریاست کو آبادی کے تناسب سے ووٹ کا حق دیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں الیکٹورل کالج کی کل تعداد 580 ہے، جس میں سے کسی بھی صدارتی اُمیدوار کو جیتنے کے لئے 270 ووٹ حاصل کرنا لازمی ہے۔ بی بی سی کے مطابق اس وقت ریاست ہائے امریکہ میں وسکونسن، پینسلوینیا اور مشی گن کے علاقے جن میں 2016ء میں ٹرمپ صرف ایک فیصدی برتری سے فتح یاب ہوئے تھے اب ان کے حالات قدرِ مختلف ہیں، کیونکہ اس وقت جوبائیڈن زیادہ طاقت کے ساتھ ان علاقوں میں اْبھرے ہیں یہ مکمل طور پر صنعتی ریاستیں ہیں اور امریکی الیکشن میں بہت حد تک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ جن ریاستوں میں ٹرمپ نے گذشتہ انتخابات میں واضح برتری حاصل کی تھی اُن ریاستوں میں بھی مقا بلہ بہت سخت ہے ان ریاستوں میں اوہائیو اور ٹیکساس شامل ہیں ان ریاستوں میں ٹرمپ کی انتخابی مہم کو سخت چیلنجز در پیش ہیں۔
چند ماہرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی کچھ ایسی سنگین غلطیاں ہیں کہ جو ان کی انتخابی مہم پر بہت گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہیں ان میں سے چند مسائل بہت اہم ہیں جیسا کہ صدر ٹرمپ کی حکومت کے دوران نسل پرستی کے خلاف عوام و میڈیا کا رد عمل، میڈیا سے ناروا سلوک، نسلی فسادات کے دوران پولیس کا غیر منصفانہ رویہ، کورونا کی وبا کے حوالے سے ٹرمپ کے غیر سنجیدہ اقدامات، گزشتہ صدارتی انتخابات کی طرح اس سال بھی ٹرمپ کا خود کو اشرافیہ کے خلاف نمائندہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنا شدید تنقید کا شکار ہے۔ ان حالات میں امریکہ کے عوام سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ کیا صدر ٹرمپ کو دوبارہ منتخب کرنا کہیں۔امریکی مفادات کے لئے تشویش کا باعث نہیں ہو گا۔ یہاں اب جوبائیڈن کو اپنی حکمت عملی سے عوام پر ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ملک کو بہتری کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔ گو کہ جوبائیڈن اپنی زبان کی وجہ سے اکثر مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ اس لئے ٹرمپ اور جوبائیڈن میں یہ قدر تو مشترک ہے کہ دونوں کو اپنی زبان پر اختیار حا صل نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال میں ایک طرف یورپ، چین، روس، پاکستان، ایران و افغانستان امریکی حکومت کے تبدیل ہونے کے انتظار کر رہے ہیں تو دوسری طرف انڈیا، اسرائیل ٹرمپ حکومت کے دوبارہ منتخب ہونے کے منتظر ہیں۔
ٹرمپ حکومت کاایران کے ساتھ معاہدوں سے انحراف و شدید اقتصادی پابندیاں اور عرب ممالک پر ٹرمپ حکومت کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا شدید دباو ٹرمپ کے دوبارہ حکومت میں آنے سے ان ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے، جس کے اثرات بہت دور رس ہو سکتے ہیں۔ اگر ٹرمپ انتخابات جیت بھی گئے تو ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے افغان امن کے لئے پاکستان کی شمولیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ پاکستان کا کردار افغان امن میں بہت اہم ہے، کیونکہ طالبان کا پاکستان کی طرف جھکاؤ، سابق افغانی وزیراعظم گلبدین حکمت یار کا پاکستان کا اس وقت دورہ امریکہ کو عالمی امن میں پاکستان کے کردار کی اہمیت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ البتہ چین و امریکہ میں طاقت کا تناسب قابل غور معاملات ہیں، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کا دھمکی آمیز رویہ چین، روس اور ایران کو جنگ کی طرف دھکیل کر عالمی امن کے راستے میں رکاوٹ پید ا کر سکتا ہے۔ اگر جوبائیڈن فتح سے ہمکنار ہوتے ہیں تو امریکہ میں واضح تبدیلی کا امکان ہے۔ ان کا اسلاموفوبیا کے خلاف اقدامات کرنے کا وعدہ ان کو مسلمانوں میں بڑی تیزی سے مقبول کر رہا ہے انہوں نے بار ہا اس عزم کو دوہرایا ہے کہ وہ اقتدار میں آتے ہی پہلا کام ان سات مسلم ممالک پر ٹرمپ کی طرف سے عائد امیگریشن پابندیوں کا خاتمہ کریں گئے۔