غرض دو گونہ عذاب است جانِ مجنوں را
اکبر الٰہ آبادی کا ایک مشہور قطعہ ہے:
قدیم وضع پہ قائم ہوں میں اگر اکبر
تو صاف کہتے ہیں سیّد! یہ رنگ ہے میلا
جدید طرز اگر ختیار کرتا ہوں
تو اپنی قوم مچاتی مے شور و واویلا
غرض دو گو نہ عذاب است جانِ مجنوں را
بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقتِ لیلیٰ
اگر آج پاکستانی فوج کو مجنوں تصور کر لیں تو اس کو دو لیلاؤں کا سامنا ہے۔ لیلائے دشمن اور لیلائے دوست دونوں عذاب ہیں۔…… لیلائے دوست، پاکستان ہے اور لیلائے دشمن بھارت ہے۔ یہ فوج، پاکستانی لیلیٰ پر نجانے کتنی جانیں نچھاور کر چکی ہے لیکن پھر بھی بعض طبقوں کے لئے نامرغوب بلکہ مردودِ بار گاہ ہے۔ سات عشروں تک میڈیا اسے ایک مقدس گائے سمجھتا رہا۔اس کا نام لینا اور لکھنا تک ممنوع تھا۔کبھی فرشتے کہا جاتا تو کبھی آسمانی مخلوق کا نام دیا جاتا۔ پھر ایک طویل عرصے تک اسے Establishment کہا جاتا رہا۔آج بھی بعض تحریروں اور تقریروں میں اس کا نام اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔کسی اُردو انگلش ڈکشنری میں Establishment کا اُردو معنیٰ ”فوج“ نہیں لکھا ہو گا۔لہٰذا فوج کے نام کا مفہوم دھندلایا رہا۔اس کی واحد وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف تو فوج، ملک و قوم کی رکھوالی ہے،اس پر سو جان سے مر مٹتی ہے، وطن کی روح کہلاتی ہے، مرجع ِ خاص و عام سمجھی جاتی ہے، روزانہ دشمنوں کی طرف سے وارد کی جانے والی شہادتوں کو گلے لگاتی ہے لیکن دوسری طرف بعض گروہ اس کو دشمن ِ جاں گردانتے ہیں،اس کو گردن زدنی قرار دیتے ہیں، غاصب اور حاسد کے القابات سے یاد کی جاتی ہے اور ان حضرات کو ایک آنکھ نہیں بھاتی…… اگر یہ تناقض یا تضاد دُنیا کی دوسری ترقی یافتہ اقوام کی افواج میں بھی دیکھا اور پایا جاتا تو ہم شائد اسے درست سمجھ لیتے۔لیکن یہ دو عملی یا ”دو فکری“ صرف پاکستان جیسے چند معاشروں میں پائی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ معاشرے قصور وار ہیں یا خود فوج اپنے آپ کو غاصب، حاسد اور دشمن کہلوانے کی سزا وار ہے۔
فوج کے سلسلے میں ایک بدیہی حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کی ساری ٹریننگ اور عقیدہ سازی (Indoctrination) اپنے ”دشمن“ کے خلاف ہر طرح کے حربے استعمال کرنے کی فضا میں پروان چڑھتی اور چڑھائی جاتی ہے۔ غینم کو دھوکہ دینا، اس کے خلاف ایسے منصوبے بنانا جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوں،اس کو ہر سطح پر نیچا دکھانا، زمانہئ امن میں بھی اس دشمن کے خلاف ہر طرح کی تیاریوں میں دن رات ایک کر دینا،اس کی پوشیدہ قلتوں، کمزوریوں اور نااہلیوں کے سراغ لگانا، اس کو اقوامِ عالم کی برادری میں رسوا کرنا اور اس کی معاشی، معاشرتی، مذہبی، نسلی اور ہمہ جانبی جراحتوں پر نمک پاشی کرنا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ دوسری طرف اس کا دشمن بھی بالکل انہی خطوط پر عمل کرتا اور اس کے بارے میں یہی سوچ رکھتا ہے۔یہ افواجِ عالم کا دن رات کا وظیفہ ہے۔ اور یہ وظیفہ نظری بھی ہے اور عملی بھی۔ یعنی جو کچھ سوچا یا پلان کیا جاتا ہے اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ظاہر ہے اس کاروبار میں جاں کا زیاں بھی ہوتا ہے اور دُنیا کی ہر فوج اس کے لئے تیار رہتی ہے۔
لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ سارے حربے اور ساری حریفانہ تدابیر خارجی دشمن کے خلاف ہوتی ہیں جو اس کے وطن کی بنیادوں پر حملے کرتا یا حملوں کی پلاننگ کرتا یا گرم و سردجنگ کا بازار گرم کرتا ہے۔ آپ دُنیا کی کسی جنگ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو معلوم ہو گا کہ ہر ملک کی فوج اپنے خارجی دشمن کے خلاف انہی خطوط پر ٹرین کی جاتی ہے۔…… لیکن یہاں ذرا رکیے…… اگر کسی ملک کا خارجی دشمن ان ”حرام زدگیوں“ کا ارتکاب کر رہا ہو تو اس کے لئے تو یہ عسکری تربیت (ملٹری ٹریننگ) بحیثیت ادارہ، فوج کی اولین ذمہ داری ہے لیکن اگر کوئی داخلی دشمن بھی یہی کچھ کر رہا ہو،اگر اس کا مقصد بھی خارجی دشمن کے مماثل ہو، اگر وہ بھی خارجی دشمن سے ملاپ رکھتا ہو،اس کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہو اور اس کا ثبوت بار بار دیکھنے اور سننے کو ملے تو یہ داخلی دشمن بالکل خارجی دشمن کے برابر ہو جاتا ہے اور اگر فوج کو یہ ٹاسک بھی سونپ دیا جائے کہ وہ اس طرح کے داخلی دشمن کی ٹوہ بھی لگائے تو فوج(مجنوں) کی جان کو دو گونہ عذاب کا سامنا ہو جاتا ہے……
پاکستان کے حکمرانوں نے جب آئی ایس آئی کا ادارہ قائم کیا تھا تو کافی برس بعد اس میں ایک سیل(Cell) یہ بھی کھولا گیا تھا کہ وہ اس داخلی غنیم کا سراغ بھی لگائے جو خارجی غنیم کی طرح اپنے ملک کے خلاف ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہوتا ہے جو خارجی دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ …… گھر کا بھیدی صرف ایک بار نہیں، ہر بار اور ہر جگہ لنکا ڈھا دینے پر قادر ہوتا ہے۔آئی ایس آئی ڈائریکٹوریٹ میں یہ سیل (Cell) کب کھولا گیا اور کس نے کھولنے کا حکم دیا،اس کا پتہ لگانے کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑتا۔ذرا گوگل پر جائیں اور تلاش کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ جس سویلین حکمران نے بھی پاک فوج کی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے منشور میں سروسز (آرمی، نیوی، ائر فورس) کے علاوہ ”سیاسیات“ کو بھی شامل کیا تھا، وہ اِس ملک کا ”اصلی اور بڑا دشمن“ تھا۔
فوج نے یہ بیڑا اٹھایا لیکن اس کی ٹریننگ چونکہ خارجی دشمن کو شکست دینے کے خطوط پر کی جاتی ہے اِس لئے فوج نے ”سیاست“ کو بھی ایک داخلی دشمن کے طور پر مجسم کیا، اسے غنیم کا لبادہ اوڑھایا اور اس کی حرکات و سکنات اور اس کے کرتوتوں کو بھی مانیٹر کرنا شروع کر دیا۔ مرور ایام میں یہ سیل وسیع تر ہوتا گیا۔جوں جوں سیاست کے کار پردازوں نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر فوقیت دینے کی روش کو عام کیا، اس کو باقاعدہ ایک ”فن“ بنانے کی رسم ڈالی،اسے عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے ہزار پاپڑ بیلے، صد ہزار حیلے تخلیق کئے اور دہ صد ہزار نئے نسخے دریافت کئے،اور آئی ایس آئی کے اس سیل (Cell) کو بھی اس نسبت سے اپنی سراغ رسانی اور جاسوسی کاوشوں کو برسرکارِ لانا پڑا۔
آج جب کسیJIT میں ISI یا MI (ملٹری انٹیلی جنس)کو شامل کیا جاتا ہے تو اس کی رپورٹ نہ صرف تفصیلی، ضخیم اور لحیم شحیم ہوتی ہے بلکہ ایسے ایسے دستاویزی اور تصویری ثبوتوں سے لدی پھندی بھی ہوتی ہے کہ اسے جھٹلانا ممکن نہیں ہوتا…… پاکستان کا کوئی سویلین چیف ایگزیکٹو اگر ISI میں ”سیاسی سیل“ (Political Cell) کا دریچہ نہ کھولتا تو ملک کو جو نقصان پہنچتا، سو پہنچتا۔ لیکن میڈیا پر روز و شب آج جو ہا ہا کار مچ رہی ہے، وہ نہ مچتی……
آج سندھ میں پولیس اور فوج کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے…… اور جانِ مجنوں (فوج) کو دو طرح کا عذاب درپیش ہے۔ ایک تو فرقتِ لیلیٰ (خارجی دشمن) کا عذاب ہے۔ فوج نے اچھا کیا ہے کہ داخلی عذاب کو فی الحال موخر کر دیا ہے۔کراچی کور کمانڈر کی تحقیقات تو آتی رہیں گی لیکن آرمی چیف نے بلاول زرداری کو از خود فون کر کے جراتِ رندانہ کا ثبوت دیا ہے، جس روز یا شام بلاول کو فون کیا اسی شب کور کمانڈرز کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔یہ کانفرنس ملک کو درپیش خارجی خطرات سے متعلق تھی۔اگر پاکستان کو بھارتی خطرہ نہ ہوتا تو بلاول کو یہ فون نہ آتا…… لیکن جناب باجوہ نے یہ روبی کان عبور کیا ہے تو ان کی فراست و بصیرت کی داد دینی چاہئے۔ان کی اولین ذمہ داری خارجی دشمن سے نمٹنے کی ہے۔ صحبت ِ لیلیٰ سے زیادہ خطرہ فرقت ِ لیلیٰ سے ہے۔ ذرا خارجی دشمن سے دو دو ہاتھ کر لئے جائیں تو داخلی دشمن کو بھی دیکھ لیا جائے گا۔ پروین شاکر کی زبان میں:
ابھی میں ایک محاذِ دگر پہ الجھی ہوں
ابھی یہ وقت نہیں مجھ کو آزمانے کا