لیپ ٹاپس بمقابلہ 1100/1100 نمبرز

لیپ ٹاپس بمقابلہ 1100/1100 نمبرز
لیپ ٹاپس بمقابلہ 1100/1100 نمبرز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کورونا کی وجہ سے بہت سے شعبے متاثر ہوئے ہیں،مگر جو حال ہماری حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے نظام تعلیم اور امتحانی نظام کا کیا ہے دوبارہ پٹڑی پر چڑھتے چڑھتے شاید کئی سال لگ جائیں،74 سال سے یکساں نصاب تعلیم کا خواب دیکھنے والی پاکستانی قوم کو جلد بازی میں جو تحفہ پانچویں تک کا دیا گیا ہے اس میں بھی اہل ِ پاکستان کی قسمت سنوارنے کی کوشش کم اور یکساں نصاب کی آڑ میں سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعات، صحابہ کرامؓ اور جہاد کے مضامین اور مختلف کتابوں سے نکال کر اسلامیات تک محدود کرنے کی سازش بے نقاب ہوئی ہے اس پر مَیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، تین سال پہلے تک پی ٹی آئی باقاعدہ تشہری مہم چلاتی رہی ہے میاں شہباز شریف نے قوم کے اربوں روپے لیپ ٹاپس پر ضائع کر  دیئے ہیں۔ میاں شہباز شریف کی طرف سے تقسیم کیے گئے لیپ ٹاپس کا تعلیمی نظام یا امتحانی نظام کو فائدہ ہوا یا نہ ہوا ہو نوجوانوں میں لیپ ٹاپ سے زیادہ لیپ ٹاپ کا بیگ مشہور ہوا ہے اس میں بھی دو رائے نہیں ہے۔


لگتا تھا کہ 71سالوں میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی انٹرنیشنل معیار نہ پا سکی تھی اب تحریک انصاف کی حکومت میں یونیورسٹیوں کا معیار بھی عالمی رینکنگ میں سنگل ڈجیٹ میں آ جائے گا،اور پھر یکساں نصاب تعلیم کا پُرکشش نعرہ تو اس انداز میں لگایا جا رہا تھا کہ اب غریب امیر ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔ تین سال گزرنے کے بعد اندازہ ہوا تقریریں کرنا آسان ہیں، عمل واقعی مشکل کام ہے رہی سہی کسر کورونا نے پوری کر دی،ناقص منصوبہ بندی کا خمیازہ پوری قوم کو مدتوں بھگتنا پڑے گا۔ سکول، کالجز، یونیورسٹی جہاں سب سے زیادہ بہتر اور منظم انداز میں کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد ہو سکتا تھا کروایا جا سکتا تھا، تعلیمی اداروں کو بند کر کے یا ایک دن کھول کر ایک دن بند کر کے پورے نظام کو تباہ کر دیا گیا۔سرکاری اداروں کا بھرم تو سرکاری ٹیچر رکھ رہے ہیں، کیونکہ ان کی تنخواہیں اور الاؤنس تو بند نہیں ہوئے، چھوٹے بڑے ہزاروں سکولز جو کرایہ کی بلڈنگز میں تھے بند ہو گئے،چھوٹا سٹاف گارڈ ہیلپرز، ٹیچرز بے روزگار ہو گئے،صرف پنجاب میں 15 ہزار سکول بند ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔


مشکل وقت میں ہمیشہ حکومتیں سر جوڑتی ہیں، مشاورت کرتی ہیں کیسے مشکل سے نکلا جائے، قوم کو اعتماد میں لیتی  ہیں ہماری گنگا الٹی بہتی رہی ہے، امتحان لینا ہے، نہیں لینا ہے،ایک کلاس کو پاس کرنا ہے، ایک کلاس کو امتحان سے گزارنا ہے۔8ویں تک پالیسی  پاس کرنے کی بن گئی، 9ویں، 10ویں کے چار پرچے لینے ہیں،او لیول کے سارے پرچے لینے ہیں،11ویں،12ویں کے بھی چار پرچے لینے ہیں، پھر قوم نے عجیب تماشا دیکھا، ڈیٹ شیٹ آ گئی،امتحان ہو گیا، پرچوں کی چیکنگ پر لاکھوں روپے خرچ کر دیئے گئے، پھر فیصلہ ہو گیا، پاس مارکس دینے ہیں کسی کو فیل نہیں کرنا، پھر کسی نے مشورہ دیا جن بچوں نے تیاری کی ہے ان سے زیادتی ہو گی پھر کیا تھا پڑھنے ولے بچوں اور نہ پڑھنے والے بچوں کا کرائی ٹیریا بنایا گیا،چار پرچے جو لازمی لیے گئے ان کے مارکس ہمیشہ پورے آتے ہیں،بچوں نے لئے بھی ان چار کے مارکس دوسرے چار کے برابر حیب کیے گئے ہیں تو پتہ چلا کہ حکومتی کرائی ٹیریا میں بعض بچوں کے 1100 نمبروں میں سے10اور20 تک نمبر بڑھ گئے۔1100میں سے 1100 لینے والے بچے بچیوں کی تعداد تو درجنوں سے بڑھ کر سینکڑوں میں چلی گئی، بورڈ کی میٹنگ میں ذمہ دار سر پکڑ کر بیٹھے تھے،حکومتی ذمہ داران نے کہا چلنے دیں، پھر قوم نے دیکھ لیا12ویں کلاس  کے نتائج میں 900 سے زائد بچے بچیاں 1100 میں سے1100 حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔


دلچسپ امر یہ ہے بڑے بڑے سکول اکیڈمیاں حکومتی ناقص پالیسی اور نااہلی کو اپنی شاندار کارکردگی ظاہر کر کے والدین کو مبارکباد دے کر مٹھائیاں کھا رہی ہیں اب جب10ویں کے نتائج کے بعد ڈراپ سین ہو گیا ہے تو کالجز اور یونیورسٹیوں کے پرنسپل اور وائس چانسلر نے دنیا بھر میں ہونے والی جگ ہنسائی پر پردہ ڈالنے کے لئے 1100،900 والے اور800 والوں سمیت سب کا ٹیسٹ اور انٹرویو لازمی قرار دے دیا ہے، کیونکہ بڑے یونیورسٹی میں 1000نشستوں میں 1000کے قریب پورے مارک والے بچے بچیاں رزلٹ کارڈ لئے ہوئے ہیں، سینکڑوں طلبہ و طالبات نے بورڈز کو گِلا کیا ہے ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے ان کا گِلا دور کرنے کے لئے بورڈ نے پندرہ دن میں شکایت درج کرانے کی ڈیڈ لائن کے ساتھ دسمبر میں دوبارہ امتحان لینے کی تجویز دے دی ہے۔ میڈیکل کالجز پہلے ہی سر پکڑے بیٹھے ہیں ان کے انٹری ٹیسٹ میں سب سے زیادہ نمبر لینے والے ٹیسٹ میں فیل کر دیئے گئے ہیں۔ایک جگہ نااہلی ہو تو کسی کو قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے،ہمارے تعلیمی امتحانی نظام میں تو پورے کا پورا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،کہا جاتا ہے کسی قوم کا بیڑا غرق کرنا ہو تو اس کے تعلیمی نظام اور امتحانی نظام کو کھوکھلا کر دو، تباہ کر  دو  ورنہ نتائج پوری قوم کو بھگنا پڑیں گے،رہی سہی کسر بورڈ نے یہ تجویز دے کر پوری کر دی ہے۔پاس ماکس والے امتحان اور نتائج پر کورونا امتحان تحریر ہو گا، یعنی بچے بچیوں پر یہ سیاہ دھبہ ساری عمر کے لئے وہ گا ان کی آنے والی نسلیں بھی دیکھیں گی اب 1100 میں سے1100 نمبر لینے والوں کی اسناد اورکارڈ پر جو مرضی لکھیں یہی ڈاکٹرز بنیں گے۔

یہی انجینئرز بنیں گے اور یہی سائنس دان بنیں گے اور یہی استاد اور دانشور اور سکالر بنیں گے، ناقص تعلیمی پالیسی کا انجام اور سزا پوری قوم اور آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔سوشل میڈیا پر کسی منچلے نے فقرہ لکھا ہے تم لیپ ٹاپ دیتے تھے ہم سے مقابلہ کرنا چاہتے ہو ہم نمبرز دیتے ہیں، آؤ کرو مقابلہ۔اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کو نوٹس لینا چاہئے اور ججز پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی بنانی چاہئے جو ہماری قوم اور آنے والی نسلوں سے فراڈ کیا گیا ہے،ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہئے۔امتحان لینا ہے یا نہیں۔ ایک کلاس کو اپس کرنا ہے ایک کا امتحان لینا ہے، گریس فل مارکس دینے ہیں پریکٹیکل نہیں لینے، لازمی مضامین لینے ہیں، اُردو، اسلامیات،مطالعہ پاکستان کی ضرورت نہیں۔ جناب والا اُردو، اسلامیات اور پاکستان کے مطالعہ سے ہی تو طاغوت نئی نسل کو دور کرنا چاہتا ہے سوچئے ہم جلد بازی میں کسی کے کھیل کا حصہ تو نہیں بن گئے،اب ہمارے پاس لٹانے کو کچھ نہیں بچا۔وہ لیپ ٹاپ دیتے تھے ہم نمبرز دیتے ہیں۔گزشتہ حکومتوں نے سب کام غلط نہیں کئے،غلطی ہم سے بھی ہو سکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -