میں، پاکستان اور امریکہ

Oct 22, 2024

اظہر زمان

میں پاکستان اور امریکہ کے ساتھ طویل عرصے سے کیسے ڈیل کر رہا  ہوں، یہ میرا آج کا موضوع ہے۔ امریکہ اور پاکستان دونوں کا بیک وقت شہری ہوں جس کا مطلب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں پاکستان کا ایسا شہری ہوں جو اب امریکہ میں رہ رہا ہے۔ لیکن اصل مطلب اس سے کچھ گہرا ہے اور جب آپ یہ کالم پورا پڑھ لیں گے تو کافی حد تک واضح ہو جائے گا۔

تاہم آگے بڑھنے سے پہلے اس کالم کا عنوان میں ”میں“ کو کیوں شامل کیا وہ بتاؤں گا، میرے کالموں کے مجموعے ”میں بہت عظیم ہوں“ میں بھی ”میں“ کا لفظ کیوں شامل ہے اس پر پہلے بات کر چکا ہوں اور اس سے بھی پہلے میں آپ پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے آخر اتنی وضاحت کرنا کیوں ضروری ہے؟ اس کے لئے مجھے اپنی صحافت کی طالب علمی کا ایک سبق آپ سے شیئر کرنا پڑے گا جس کے مطابق کالم اس کے لکھنے والے کے ”ذاتی اظہار“ کا میدان ہے جہاں وہ کچھ حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے خیالوں کا گھوڑا دوڑا سکتا ہے۔ کالم اپنی خالص اور اصل صورت میں ایک ادبی ذاتی اظہار یہ ہے اور اس تعریف کے مطابق لکھا ہوا کالم صحافت سے زیادہ ”ادبی تخلیق“ ہے جو کسی مضمون یا سیاسی تجزیئے سے یکسر مختلف عنصر ہے۔ اگر آپ کالم سے ”میں“ نکال دیں گے تو وہ ”مضمون“ بن جائے گا۔ اس سے زیادہ وضاحت کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

تو بات شروع ہوئی تھی میرے پاکستان اور امریکہ کے ساتھ بیک وقت تعلق سے۔ میرا اس سلسلے میں یہ تجربہ ہے کہ امریکہ میں رہتے ہوئے پاکستان سے اچھے تعلق کی بات کرنا ذرا مشکل نہیں ہے۔ جب کہ پاکستان وزٹ پر آ کر امریکہ سے اچھے تعلق کی بات کرنا ایک سر درد سے کم نہیں ہے میرے بیشتر عزیز و اقارب اور دوست حقیقت پسندی سے بہت دور ہیں۔ میری تینوں بیٹیاں کنول زمان، شاہ رخ زمان اور بسما زمان لاہور میں پیدا ہوئیں۔ میری بیگم عصمت زمان چکوال میں پیدا ہوئیں جو جلد ہی لاہور منتقل ہو گئیں۔ میں اوکاڑہ سے یہاں آیا تھا۔ میری اوکاڑہ سے جذباتی وابستگی اپنے والدین کے دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود برقرار ہے جہاں میری زندگی کا ابتدائی حصہ گزرا۔ میری فیملی کی لاہور سے جذباتی وابستگی کے بہت سے قصے میں کئی مرتبہ اپنے کالموں میں سنا چکا ہوں۔ کنول جب ایک مرتبہ پاکستان کی وزٹ پر لاہور کے لارنس گارڈن میں گول گپے کھانے لگی تو اسے بچپن میں اسی مقام پر آ کر گول گپے کھانے کا وقت یاد آ گیا تو گول گپے کھاتے ہوئے اس کے آنسو بہتے رہے جو اس نے واپس امریکہ آکر مجھے بتایا۔ علامہ اقبال ٹاؤن کے دوبئی چوک میں بہت پہلے کبھی خود کش حملے میں تباہی کی خبریں سن کر میری تینوں بیٹیاں اتنی اداس اور غم زدہ ہو کر سہمی بیٹھی رہیں کہ اس چوک کے اردگرد وہ اسی مارکیٹ میں کھیلتی پھرتی تھیں جہاں یہ حادثہ ہوا تھا۔ بہت سال پہلے لاہور ہائی کورٹ کی عمارت میں عدالت سے نکلتے ہی ایک سنگ دل باپ اور عقل سے عاری دو بھائیوں نے اس بیٹی کو پتھر مار مار کر لہولہان کیا جو موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ میری سب سے چھوٹی بسما نے ٹی وی پر یہ رپورٹ دیکھی جس میں اس معصوم لڑکی کا یہ جرم بتایا گیا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کر لی تھی۔ بسما میرے گلے لگ کر روتے روتے ہلکان ہو گئی اور میرا گریبان کھینچ کر کہنے لگی آپ بھی تو پاپا ہیں جو سب بیٹیوں پر جان چھڑکتے ہیں اور یہ کیسا باپ ہے جو اپنی ہی بیٹی کو زمین پر لٹا کر اینٹوں سے لہولہان کر رہا ہے۔ ”پاپا! دنیا میں ایسے باپ بھی ہو سکتے ہیں مجھے یقین نہیں آتا۔“

بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ میں اور میری فیملی کے ارکان پاکستان کے کسی نہ کسی شہر سے جذباتی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان سے محبت کا یہ مطلب کیسے نکلتا ہے کہ اگر ہم جو امریکہ کے شہری ہیں امریکہ سے نفرت کرنا شروع کر دیں۔ ایک اچھے انسان اور ایک اچھے مسلمان کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنا عہد نبھائیں۔ ”وفا داری“ کا غلط مطلب بہت مقبول ہے۔ غلط مطلب یہ کہ اگر آپ پاکستان کے شہری ہیں تو اس سے وفاداری کریں اور ساتھ میں اگر امریکہ کے بھی شہری ہیں تو اپنے عہد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان سے محبت کی خاطر امریکہ سے ”بے وفائی“ کریں۔

مجھے تو اسلامی شریعت یا کسی اور مذہب کے ضوابط میں کہیں ایسا اشارہ نہیں ملا جس میں امریکہ جیسے کسی ملک کی شہریت کا حلف اٹھا کر اس عہد کی خلاف ورزی کا حکم دیا گیا ہو۔ میرا مذہب صرف یہ تقاضہ کرتا ہے کہ میں دینی احکامات کی پابندی کروں۔ پاکستان کی سیاست میں کیا ہو رہا ہے اس سے مجھے کوئی سرو کار نہیں ہے۔ اس کا شہری ہونے کی حیثیت میں مجھ پر واجب ہے کہ میں پوری سچائی اور خلوص سے پاکستان کی ”ریاست“ سے اپنا رشتہ نبھاؤں۔

اسی طرح مجھے امریکی حکومت کی پالیسیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ امریکی انتظامیہ بین الاقوامی سطح پر جو کچھ کر رہی ہے اس سے مجھے شدید اختلاف ہے لیکن امریکی شہری ہونے کا حلف اٹھانے کے بعد میں اس کی ”ریاست“ سے احترام، محبت اور وفاداری کا عہد اٹھا کر منافقوں کی صفوں میں شامل نہیں ہو سکتا۔ میں چونکہ بنیادی طور پر ”غیر سیاسی“ لکھاری ہوں اس لئے پاکستان اور امریکہ دونوں کی حکومتوں سے اگر کبھی اختلاف ہو تو اس پر شور نہیں مچاتا لیکن واشنگٹن کے ایک میڈیا پروفیشنل ہونے کی حیثیت سے یہاں کے حکومتی معاملات پر لکھتا رہتا ہوں۔ ابھی چند دنوں تک امریکہ کے صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کچھ عرصہ یہی انتخابات میری تحریروں کا موضوع ہوں گے جن میں لازمی طور پر امیدواروں کی فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے پالیسیوں کا ذکر آئے گا تو کسی لحاظ کے بغیر ان کا ذکر کروں گا۔ وہ پاکستانی جو تقسیم سے پہلے ہندوستان کے شہری اور وفادار تھے اور وہ جو اب بنگلہ دیش کے شہری بن کر اس سے محبت کرتے ہیں۔ صدارتی انتخابات کی تکمیل کے بعد جو وقت آئے گا اس میں اس پر بھی کھل کر بات کروں گا۔ آپ نے دیکھ لیا کہ ”میں پاکستان اور امریکہ“ کے عنوان کے تحت اس کالم میں، میں نے دونوں ممالک کے بارے میں اپنی ذاتی حیثیت میں اظہار خیال کیا کیونکہ میں نے ”کالم“ لکھا ہے ”مضمون“ نہیں۔ امید ہے آپ کو عنوان میں ”میں“ کے لفظ کی موجودگی کا سبب معلوم ہو گیا ہوگا۔

مزیدخبریں