سیاسی و اداراتی اتھل پتھل کیا رنگ دکھائے گی...?

Oct 22, 2024 | 03:00 PM

تحریر:  امتیاز عالم 

اگلے چیف جسٹس کی تقرری سے چار دن پہلے آئینی عدالتی ترمیم کروانے کی جلدبازی اس بات کو بے نقاب کرتی ہے کہ حکومت جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس نہیں لگانا چاہتی۔ لیکن اگر جسٹس یحییٰ آفریدی نے شرم کی  تو؟ یا پھر آئینی بنچ کی سربراہی جسٹس منصور یا جسٹس منیب  کو مل گئی تو کیا ہوگا؟ انتخابی دھاندلی کا پٹارا کھل سکتا ہے! 
 اگر بلاول اور مولانا کی پراسرار ابتدائی مسودوں کے کچھ انتہائی ’زہریلے‘ مواد کے خلاف احتیاط اور باہمی لچک نہ ہوتی تو 26ویں ترمیم اپنی موجودہ ماڑریٹ شکل میں منظور نہ ہوتی۔ ترامیم پاس ہوئیں  بھی تو بڑے پاپڑ  پیل کر اور منحرفین کی مدد سے۔ عدالتی فعالیت کو متوازن کرتے ہوئے، ترمیم نے آئینی بنچوں میں وفاقی  اکائیوں کی نمائندگی کو کچھ بہتر بنایا ہے جس میں عدالتی بھرتی اور تشخیص میں قانون سازوں کا تھوڑا بہت  کردار ہوگا۔ لیکن جو پارلیمانی عدالتی کمیٹی بنائی گئی ہے وہ وفاقی اکائیوں کی مساوی نمائندگی کو ظاہر نہیں کرتی۔ لیکن بلاول اور مولانا کیوں جسٹس منصور کا حق مارنے کے گناہ میں کیوں شامل ہونا چاہیں گے؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کس طرح دوہرے ڈھانچے میں ایڈجسٹ یا ری ایکٹ کرے گی اور ایگزیکٹو عدلیہ کی آزادی کو کس حد تک محدود کر پائے گی؟ 
 اپنی والدہ بے نظیر بھٹو شہید کے میثاق جمہوریت کے آئیڈیلزم سے متاثر( جسے دو نوں بڑے مخالفین کی باہم چپقلش میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی خواہش میں مقتدرہ سے بغل گیری کے ہاتھوں میثاق کی بے حرمتی کے باوجود) بلاول جزوی طور پر اپنے وفاقی عدالت کے وژن کو آگے لے جانے میں  کامیاب رہے ہیں،  یعنی وفاقی اور صوبائی سطحوں پر آئینی بنچ۔  لیکن ججوں کے طریقۂ انتخاب پر سوال کھڑے ہوگئے ہیں کہ ڈور کس کے پاس ہوگی؟ 
اس تین طرفہ اقتدار کی کشمکش میں، بظاہر ایک غالب فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ایگزیکٹیو کے ایک انتہائی کمزور سویلین حصے یعنی وزیر اعظم شہباز شریف کی بے پیندے کی حکومت کے ساتھ مل کر ایک مضبوط عدلیہ کو کنٹرول کرنے میں جزوی طور پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمان نے سود کی ممانعت پر بڑا نظریاتی معرکہ مارا ہے تو بلال نے بھی حکومتی مؤقف میں نرمی لاکر اپنی سیاسی بردباری کا مظاہرہ کیا ہے۔  ایک دوسرے کو رعائیتیں دیتے ہوئے دونوں نے نہ صرف اصل حکومتی مسودے کا ڈنک نکالا بلکہ پی ٹی آئی کو بھی مشاورت میں شامل کرکے نئے سیاسی امکانات کی کھڑکی کھول دی ہے۔ مولانا کے خلاف پی ٹی آئی والوں نے جو بیہودہ الزام تراشیاں کی تھیں اسکا انہوں نے بڑا ہی مہذبانہ حساب چکا دیا ہے اور پی ٹی آئی کی ساری قیادت انکی قدم بوسی اور بلاول سے مصافحہ پہ مجبور ہوئی ہے ۔ ممکنہ نئی صف بندی میں مولانا اور بلاول دونوں کے لیے سیاسی مواقع بڑھے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے سے زیادہ متحرک بلاول بھٹو کے سامنے ماند پڑگئے، اور دوسری طرف پی ٹی آئی کی قیادت اپنے کنفیوژن کی وجہ سے متضاد حکمت عملی سے دوچار نظر آئی۔ پی ٹی آئی کا بائیکاٹ اور عمران خان کا سب کو رد کرنے والا نظریہ مقبول عام پارٹی کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔  اس پوری آئینی دھینگا مشتی میں پی ٹی آئی قلابازیاں کھاتی نظر آئی۔ نہ ادھر نہ اُدھر۔ 

عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے سامنے مشرف کی پسپائی، 58-2(b) کے صدارتی اختیار کے خاتمے اور 19 ویں ترمیم کے باعث چیف جسٹس صدر کی جگہ ٹرائیکا کا رکن بن بیٹھا اور عدلیہ کے ہاتھوں وزرائے اعظم کو گھر بھیجا جاتا رہا اور سول انتظامیہ اور مقننہ کو مہم جو عدلیہ نے کونے میں لگادیا۔ 26ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی اس چڑھائی اور مطلق العنانیت کو لگام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ 
 چیف جسٹسز   افتخار چودھری،   ثاقب نثار،  کھوسہ،  گلزار،  بندیال سے لے کر ایک  قاضی فائز عیسیٰ تک لگاتار جوڈیشل ایکٹوازم کے طوفانی دور نے عدالتی بازو کو مقننہ اور اس کی سویلین انتظامیہ  پر بھاری کردیا۔ ٹرائیکوٹمی آف پاور کے نظریہ کے تحت آئین کو سپریم قرار دے کر آئینی تشریح کی اجارہ داری حاصل کرکے عدلیہ نے پارلیمینٹ کی بالا دستی کو کھڑے لائن  لگادیا۔ آئینی احتیاط رہی نہ اداروں کی آئینی حدود۔  پرویز مشرف کے ساتھ کامیاب شو ڈاؤن کے بعد، جس کی آئین کی پہلی خلاف ورزی کو PCOعدلیہ نے قانونی حیثیت دی تھی، سپریم کورٹ اتنی طاقتور بن کر ابھری کہ اس نے مضحکہ خیز بنیادوں پر 2 منتخب وزرائے اعظم کو کھربھیج  دیا اور تمام سویلین ایگزیکٹو امور پر عدالت خود مختار بن گئی۔  چیف جسٹس 58-2(b) کی رز کے اختیارات سے مسلح، صدر مملکت کے بے اختیار ہونے سے، طاقت کے خلاء کو پر کرتے ہوئے چیف جسٹس ایک نیم صدر بن گئے۔  آرمی چیف کے ساتھ مل کر متعدد چیف جسٹسز نے  وزیر اعظم کو نیچے لگا کر ایک ٹرائیکا تشکیل دی جس میں پہلی چھید بندیال اور قاضی عیسیٰ نے ڈالی۔ اسی دور میں جسٹس بندیال کی عمران خان کے ساتھ نرم روی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ابتدائی دور میں آزاد روی سے اسٹیبلشمنٹ ( فوج+ عدلیہ) کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں، آرمی چیف  قمر جاویدباجوہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے درمیان پھوٹ پڑ نے سے اور عمران کی پولرائزیشن کی عوامی سیاست نے معاشرے اور ریاست دونوں کو گہرے طور پر تقسیم کر دیا۔  ایک لاینحل اداراتی و سیاسی بحران پیچیدہ تر ہوگیا۔

فروری کے انتخابات میں تاریخ کی بدترین ہیرا پھیری کے باوجود پی ٹی آئی اپنا انتخابی نشان کھونے کے باوجود جیتی اور 9 مئی کو فوجی تنصیبات کے خلاف پی ٹی آئی کی طرف سے سپانسر کیے گئے واقعات نے ایک بہادر خان اور  گیریژن کے درمیان  خونی لکیر کھینچ دی۔ عمران خان کی سماج اور ریاستی اداروں میں پذیرائی نے دور رس اثرات مرتب کیے۔  عمران نے عدلیہ اور اس کے اندر اختلافات سے بھرپور فائدہ اُٹھا کر فوج اور عدلیہ کے بڑے حصے کو فوج کے خلاف کھڑا کردیا جس کے نتیجے میں عدلیہ اور فوج کا تاریخی محور ٹوٹ گیا۔  اپنی انتخابی حمایت کو  سڑکوں پر احتجاجی قوت میں تبدیل کرتے ہوئے، ایک قیدی عمران خان نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مشکل میں ڈال دیا جبکہ عدلیہ کا بڑا حصہ عمران خان کے لیے جائے پناہ بن گیا۔ طاقت کے ڈھانچے کے اندر موجود یہ تضادات اور سیاستدانوں کے درمیان مفاد پرستانہ کشمکش کے باعث، ایک دستنگر شہباز حکومت فوج کی سرپرستی میں اعلیٰ عدالتوں کے پروں کو تراشنے کے لیے آئینی ترمیم لانے نکل کھڑی ہوئی۔  "  اگلے چیف جسٹس کی تقرری میں سینئر ترین جسٹس منصور علی شاہ کو نظرانداز کرتے ہوئے، اگر جسٹس یحییٰ اور جسٹس منیب دونوں نے انکار کر دیا یا جسٹس منصور آئینی بنچ کے سینئر جج بن گئے تو کیا ہوگا؟
اگلے مرحلے میں یہ سیاسی و اداراتی اتھل پتھل کیا رنگ دکھائے گی کسی کو صیح اندازہ نہیں اور اگر غیض و غضب کا شکار لوگ باہر نکل آئے تو معاملات کہاں جاکے رُکیں گے کسی کو اندازہ نہیں۔ 
(انگریزی سے ترجمہ امتیاز الحق )

نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں

مزیدخبریں