پسِ پردہ کیا ہے؟
ڈرامہ عالمی ادب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ عام طور پر ڈرامے کا اختتام المیہ یا طربیہ ہوتا ہے۔ دہشت گردی کی ج گ کے خلاف ج گ کا ڈرامہ اس لحاظ سے م فرد حیثیت رکھتا ہے کہ اس کا آغاز ہی ٹریجڈی سے ہوتا ہے۔ کہا ی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ستمبر2001ئ.... جب ورلڈ ٹریڈ س ٹر کا واقعہ رو ما ہوا یا ومبر2000ءسے جب برل میں وزراءکو سل کا مشترکہ اجلاس م عقد ہوا؟.... ہیں اس سے بہت پہلے 1980ءمیں جذبہءجہاد سے سرشار اسامہ ب لاد کو سوویت کفار کے خلاف ج گ لڑ ے کا فریضہ سو پا گیا۔ گرم پا یوں تک اشتراکی رسائی کو مجاہدی ے امریکی آشیر باد سے اممک تو ب ا دیا، لیک بدقسمتی سے دہشت گردی کے خلاف ج گ دراصل خطے میں امریکی مفادات کی ج گ ثابت ہوئی۔ وہ ج گجو جو کبھی امریکہ کے دوست تھے، اب دشم ب گئے، یع ی ب دوق کا رُخ ب دوق تھما ے والے کی جا ب ہوگیا۔ ماضی میں ہو ے والے واقعات و حالات کا ب ظر غائر جائزہ لی ے سے پتہ چلتا ہے کہ افغا ستا پر حملے کا پروگرام 9/11 کے واقعے سے پہلے ہی طے پا چکا تھا۔ ڈاکٹر پال کریگ رابرٹس (سابقہ اسسٹ ٹ سیکرٹری اک امک پالیسی) کے مضمو سے م درجہ ذیل اقتباس قارئی کی دلچسپی کے لئے پیش ہے:
”....جوں جوں9/11 کی کہا ی میڈیا پر دُہرائی گئی۔ حیرت ا گیز ا کشافات سام ے آتے گئے۔ سولہ امریکی خفیہ ایج سیوں، بشمول سی آئی اے اور ایف بی آئی کی آ کھوں میں دھول جھو ک کر دہشت گردوں ے عالمی طاقت کی عزت کو خاک میں ملا دیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ات ا پیچیدہ حملہ بغیر کسی عسکری مدافعت سے کامیاب ہوا۔ سرکاری کہا ی سے پیدا ہو ے والے شکوک و شبہات کے بارے میں ماہری کیا رائے دیتے ہیں؟.... مجھے خدشہ ہے کہ امریکیوں کی سچ تک پہ چ ے کی ذہ ی اور جذباتی صلاحیت کمزور ہے۔ وہ اس بات پر یقی رکھتے ہیں کہ یش ل سیکیورٹی کے باوجود دشم امریکہ پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ امریکی عوام ات ے بزدل ہو چکے ہیں کہ وہ ڈر کی وجہ سے شہری آزادیوں اور آئی ی حقوق کی قربا ی دی ے کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔
اس پس م ظر میں یہ حقیقت کھل کر سام ے آجاتی ہے کہ 9/11 کا حادثہ افغا ستا پر حملے کا ایک بہا ہ تھا۔ پچھلے گیارہ برسوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے ام پر جس طرح برسر پیکار ہیں، اس سے کیا حاصل ہُوا؟ اُسامہ ب لاد اور القاعدہ کے خاتمے کے بعد اس ج گ کا کوئی جواز باقی ہے؟ پوری د یا کا اقتصادی ڈھا چہ برباد ہو چکا ہے۔ کرئہ ارض پر فت ہ و فساد کا دور دورہ ہے۔ ا سا ی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ اقوام عالم عدم تحفظ کا شکار ہےں۔ اس ج گ سے کو مستفید ہو رہا ہے؟ دہشت گرد، ج گجو، ڈرگ مافیا، تیل اور اسلحہ ساز ص عت کے مگر مچھ راتوں رات ڈالر چھاپ رہے ہیں۔ دولت کا ارتکاز چ د ملٹی یش ل کمپ یوں کے ہاتھوں میں ہو چکا ہے۔ عالمی سطح پر غربت کی لکیر سے یچے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اکثر ماہری کی رائے ہے کہ آزاد د یا اور جمہوریت کے علمبردار درحقیقت خفیہ ایج سیوں کے ذریعے ب یاد پرستی کی حمایت کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے دہشت گردی کا مسئلہ اپ ی تمام تر سفاکیوں کے ساتھ موجود ہے۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ استعماری طاقتیں عالمی تیل کی دولت کو و آبادیاتی ک ٹرول میں لا ا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کے حکمرا تیل کمپ یوں اور اسلحہ ساز کمپ یوں کے ص عتکاروں کے ہاتھوں یرغمال ب ے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں بہار عرب سے جو لوگ فیض یاب ہوئے ہیں، ا میں سرفہرست آئل ا ڈسٹری اور اسلحہ ساز ص عتکار ہیں۔ لیبیا، مصر، تیو س، شام اور خلیج کی دیگر ریاستوں میں خا ہ ج گی میں استعمال ہو ے والا اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے؟ فرقہ واریت کو فروغ دی ے والے اپ ے مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ا کا اسلحہ بِک رہا ہے۔ معصوم اور بے گ اہ لوگ تشدد اور ظلم کا شا ہ ب رہے ہیں ۔ کسی بھی حکومت، گروہ یا فرد کا اس گ اہ میں ملوث ہو ا اقابل معافی جرم ہے۔ اس گھ او¿ ے جرم میں آزاد د یا کے ظالم حکمرا اور مذہبی عسکریت پس د برابر کے شریک ہیں۔ دہشت گردی کی ج گ میں فریقی میں استعمال ہو ے والا اسلحہ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں ب رہا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اقتصادی مفادات کی ج گ ہے۔ القاعدہ اور طالبا کی بیخ ک ی کے پیچھے تیل، گیس اور معد ی دولت سے مالا مال اسلامی ریاستوں پر قبضہ جما ا مقصود تھا۔
افغا ژاد زلمے خلیل زاد جو یو ی آئل کمپ ی کیلی فور یا(UNOCAL) میں بطور معاو کام کر چکا تھا، اسے جارج ڈبلیو بش ے کرزئی حکومت کے چارج س بھال ے کے و د بعد ایلچی کی حیثیت سے کابل میں تعی ات کیا۔ اسے یہ فریضہ سر ا جام دی ا تھا کہ اس علاقے میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر تک امریکی کمپ یوں کو کس طرح رسائی دی جائے۔ ج وب مشرقی ترکما ستا میں دو ش بے فیلڈ میں محفوظ گیس کے وسیع ذخائر خلیج فارس کے بعد دوسرے مبر پر معد ی دولت میں بے شمار کئے جا تے ہیں۔ کمپ ی کے مشیر کی حیثیت سے خلیل زاد ے اس علاقے کا سروے کروایا، جس میں مجوزہ گیس پائپ لاء کو سابقہ سوویت ری پبلک آف ترکما ستا سے لے کر افغا ستا اور پاکستا سے گزار کر بحر ہ د تک لے جا ے پر غور کیا گیا۔ اس سروے میں خدشات اور علاقائی تحفظات کو بھی ملحوظ رکھا گیا۔
1997ءمیں اس سلسلے میں طالبا اور کمپ ی کے ساتھ ہو ے والے مذاکرات میں خلیل زاد بھی شامل تھے۔ 48 ا چ قطر کے پائپ لاء کا اربوں ڈالر کا یہ م صوبہ س ٹرل ایشیا کو ایک معاہدے کے تحت1995ءمیں سو یا گیا۔ یہ پائپ لاء افغا ستا ،ترکما ستا کی سرحد کو عبور کرتے ہوئے ہرات اور ق دھار میں سے گزرے گی۔ بالآخر کوئٹہ سے ملتا کی موجودہ پائپ لاء کے ساتھ م سلک ہو جائے گی۔ 600 ملی امریکی ڈالر کے اضافی اخراجات سے اسے بھارت کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ بش اور ڈک چی ی کی افغا پالیسی کو مغربی میڈیا جس طرح پیش کرتا رہا ہے، وہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ اسے دہشت گردی کی ج گ ثابت کر ے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا، مگر پس پردہ کہا ی کو امریکی عوام اور عالمی برادری سے اوجھل رکھا گیا۔
سا فرا سسکو کرا یکل میں فری ک ویویا و ے دہشت گردی کی ج گ میں مضمر حقائق کو ایک لفظ میں قلمب د کر دیا ہے اور وہ ہے ”تیل“۔ مشرقِ وسطیٰ اور س ٹرل ایشیا کی ریاستوں میں امریکی مداخلت کا جواز دہشت گردی کو ب ایا جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ د یا کے قشے پر توا ائی کے وسائل کی تلاش ہے جو اکیسویں صدی کی ضرورتوں کو پورا کرے گی۔ ساو¿تھ افریقہ میں ردِ سلی امتیاز کی تحریک کے ہیرو وبل ام ا عام یافتہ آرک بشپ ڈیسما ڈ ٹوٹو برطا یہ میں ایک سیمی ار سے اس لئے اُٹھ گئے کہ وہاں ٹو ی بلیئر بھی مدعو تھے۔ وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ بیٹھ ا پس د ہیں کرتے تھے جو قابلِ فری ج گی جرائم کامرتکب ہو چکا ہے۔ ا کا مو¿قف تھا کہ ٹو ی بلیئر اور جارج ڈبلیو بش کے خلاف بی الاقوامی عدالت ا صاف میں مقدمہ چل ا چاہئے۔ دہشت گردی کی ج گ کے تیجے میں د یا کے خا دا کے افراد کے دل سخت ہوئے ہیں۔ ا ہوں ے سوال کیا....! آیا یہ ج گ مسلما وں، عیسائیوں اور یہودیوں کو قریب لا ے میں کامیاب ہوئی ہے“؟
امریکی ایوا وں میں بیٹھے پالیسی ساز اس بات سے بے یاز ہیں کہ اس ج گ میں اتحادی ممالک اپ ے ہی شہریوں کا شا ہ ب رہے ہیں۔ ام کے ام ہاد محافظ دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اور فرتوں کی فصلیں کاشت کر رہے ہیں۔ اس بات کا اعتراف حقیقت پس د سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا ہے۔ ا ہوں ے ایک موقع پر بَر ملا اس بات کا اظہار کیا کہ امریکہ بی الاقوامی سطح پر ا سا ی حقوق کی خلاف ورزی کر کے دشم وں کی مدد کر رہا ہے اور دوستوں سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ موجودہ امریکی قیادت کو اس بارے میں سوچ ے کی اشد ضرورت ہے:
کہا ی آپ اُلجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا