لوڈشیڈنگ سے بڑا بحران

لوڈشیڈنگ سے بڑا بحران

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                تاریخ میں کچھ ایسے واقعات ملتے ہیں، جنہیں قدرت نے کئی بار دہرایا۔ ان واقعات میں یہ نشانیاں پائی جاتی ہیں کہ جب مخصوص حالات پیدا ہو جائیں، تو مخصوص نتائج لازمی ہو جائیں گے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو قوم دیکھتے اور سنتے ہوئے بھی مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی نہیں کرتی، اسے سخت آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی قدرت کا مسلمہ اصول ہے۔ قدرت آنے والے حالات کے بارے میں اُس قوم کو مختلف طریقوں سے آگاہ کر دیتی ہے۔ پاکستان اور چین ایک سال کے وقفے سے آزاد ہوئے۔ دونوں ملکوں کی پیشگی منصوبہ بندی اور حالات کا موازنہ آپ بخوبی کر سکتے ہیں۔ وقت سے پہلے جن جن خطرات کی نشاندہی کی جاتی ہے، ہم مکمل طور پر ان سے لاپرواہی برتتے ہیں۔ ہم کسی تھنک ٹینک یا دانشور کی بات کو یا کسی سروے رپورٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہی نہیں۔ بہت عرصہ قبل بجلی کے بحران کا اندازہ ہو چکا تھا، لیکن کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہ کی اور بند کمروں میں اعلیٰ سطحی اجلاس بلائے جاتے رہے، لیکن کوئی عملی کام نہیں ہو پاتا۔
آج ساری قوم لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے اور آج ہم اس پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ سردیوں میں ہم سردی سے کانپتے رہتے ہیں اور گرمیوں میں جلتے رہتے ہیں۔ نہ سو سکتے ہیں، نہ پڑھ سکتے ہیں، نہ کوئی ڈھنگ سے کام کر سکتے ہیں اور اس سے چھٹکارا دور تک نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ ہر سال سیلاب آتا ہے، مخصوص علاقوں میں تباہی مچاتا ہے، ہر سال لوگ ڈوبتے ہیں، مویشی بہہ جاتے ہیں، کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، ہر سال لاکھوں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں، ہر سال حکمران ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فضائی نظارہ کرتے ہیں، ہر سال امداد کی اپیل کی جاتی ہے، مخصوص گروہ چندہ اکٹھا کرنے نکل آتے ہیں۔ پوری دُنیا سے پیسے مانگے جاتے ہیں، لیکن اس کی روک تھام کے لئے نہ تو کوئی منصوبہ بنایا جاتا ہے، نہ بے گھروں کو کوئی شیلٹر دیا جاتا ہے۔
اگر کوئی دردِ دل رکھنے والا گروپ دوسرے ملک سے آتا ہے اور ہر سال سیلاب آنے کا سدِباب کرنے کی کوشش کرے، تو ہم اسے ایسا کرنے بھی نہیں دیتے۔ہم ان سے کہتے ہیں کہ صرف امداد دو اور وہ بھی نقدی کی صورت میں۔ اس کو بھی چھوڑیں، ان سب سے بڑی ایک اور آفت جو ہماری طرف چلی آ رہی ہے، اس پر ذرا نظر ڈالتے ہیں۔ آنے والے جس عذاب کو دیکھ کر قوم لوڈشیڈنگ کو بھول جائے گی، وہ ہے پانی کا بحران۔ آج تک جتنی بھی الارمنگ رپورٹس آ چکی ہیں، انہیں چھوڑ دیں۔ تازہ ترین ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ ہی دیکھ لی جائے تو تسلی ہو جائے گی، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بالخصوص پانی کا سنگین بحران آنے والا ہے۔ اگر وقت پر سدِباب نہ کیا گیا یا کوئی مضبوط پلاننگ نہ کی گئی، تو صورت حال انتہائی خوفناک ہو سکتی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پانی کا بحران اگر آ گیا، تو قوم لوڈشیڈنگ کو بھول جائے گی۔ آج اگر بجلی نہیں تو سخت گرمی میں ہم نہا لیتے ہیں، اگر نہایا بھی نہ جا سکا، تو سوچیں کیا ہو گا۔ اگر پانی پینے کے لئے بھی دستیاب نہ ہوا، تو کیا ہو گا۔ وقتی سکون بھی میسر نہیں آ سکے گا، تو صورت حال کیا ہو گی؟
 بھارت اسی خطرے کے پیش نظر قبل از وقت دھڑا دھڑ ڈیم بنائے جا رہا ہے۔ پانی سٹور کیا جا رہا ہے، ہم نے گزشتہ کئی سال سے ایک ڈیم بھی نہیں بنایا اور مستقبل قریب میں کوئی ارادہ بھی نہیں۔ آج ہم اس مسئلے کو اگر حل نہیں کر پاتے، تو آنے والی نسلیں ہم سے یوں سوالات کیا کریں گی کہ دادا ابو ہم نے سنا ہے کہ آپ کے زمانے میں پانی مفت ملا کرتا تھا۔ کیا واقعی کسی جگہ سے کوئی پانی ڈال کر پی سکتا تھا اور اسے کوئی منع نہیں کرتا تھا۔ کیا واقعی فلٹریشن پلانٹ ہوا کرتے تھے، جہاں سے ہر شخص پانی حاصل کر لیتا تھا۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ گھروں میں نلکے لگے ہوتے تھے اور واش روم میں شاور بھی ہوتے تھے، جن سے پانی نکلا کرتا تھا اور آپ لوگ دن میں کئی بار نہایا کرتے تھے۔ کیا واقعی کچن میں سِنک ہوا کرتے تھے، جہاں برتن دھوئے جاتے تھے۔ یہ بھی سنا ہے کہ مسجدوں میں وضو کرنے کا انتظام بھی ہوا کرتا تھا اور ٹھنڈے پانی کے کولر لگے ہوتے تھے، کوئی بھی شخص مفت پانی پی لیتا تھا۔ ہوٹلوں میں پانی مفت ہوا کرتا تھا۔ پھر وہ سرد آہ بھر کر کہیں گے کہ کتنی پُرسکون زندگی تھی آپ کی۔کتنا اچھا زمانہ تھا۔ بجلی نہیں تھی، تو کیا ہوا آپ نہا تو لیتے تھے، آج ہم بارش کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ بارش کا پانی سٹور کرتے ہیں۔ بجٹ کا ایک بڑا حصہ پانی کے حصول کے لئے نکل جاتا ہے۔ انسان کے لئے پانی پینا مشکل ہے، جانور پالنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.... یہ باتیں محض افسانہ نہیں، اگر ہم نے آنکھیں نہ کھولیں، تو خدانخواستہ حقیقت بن جائیں گی۔
آج سے 20سال پہلے اگر کہا جاتا کہ آئندہ زمانے میں کیلا200روپے درجن اور ٹماٹر140روپے کلو فروخت ہو گا، تو لوگ بے اختیار ہنسنا شروع کر دیتے، لیکن آج حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ہمارے سابقہ اور موجودہ تمام حکمران اِن خطروں سے آگاہ ہیں، اس لئے وہ روپیہ اکٹھا کرتے ہیں کہ وقت آنے پر وہ باہر بھاگ جائیں اور قوم کو دوزخ میں ڈال جائیں۔ ان حکمرانوں میں سول اور فوجی ڈکٹیٹر سب شامل ہیں۔ قوم کو دھو کے باز حکمرانوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ فکر کرو اور ڈرو اِس وقت سے جو آنے والا ہے۔ حکمران تو بھاگ جائیں گے، ہمیں کسی ملک نے داخل بھی نہیں ہونے دینا۔ ہم مہاجرین کی فہرست میں بھی نہیں آئیں گے۔ کوئی ہمارے آنسو صاف نہیں کرے گا۔ کوئی ہمارے ساتھ مل کر روئے گا بھی نہیں، کوئی ہمیں دلاسہ بھی نہ دے گا۔ ساری دنیا میں موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔      ٭

مزید :

کالم -