بدعنوانی: ام الخبائث
سپریم کورٹ کی سخت رولنگ کے بعد اب شاید چیئرمین نیب کی تقرری اگلے چند دنوں میں کر دی جائے ،لیکن اس ایک معاملے ہی سے اس امر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں احتساب اور وہ بھی کرپشن کا، کس قدر دشوار معاملہ ہے، جس طرح ججوں کی تقرری ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق عمل میں آجاتی ہے، اسی طرح چیئر مین نیب کا تقرر بھی معمول کے مطابق ہو جانا چاہیے، مگر اسے لٹکا دیا جاتا ہے، شاید اس لئے کہ چیئر مین نیب کے منصب پر کسی غیر جانبدار اور جرات مند شخص کی تقرری کرپشن میں دھنسے ہوئے نظام سے مستفید ہونے والوں کو زہر قاتل نظر آتی ہے، حالانکہ اس قوم کو احتساب کا ایک مضبوط نظام چاہیے، کیونکہ کرپشن پاکستان میں جرائم کی سب سے بدترین شکل ہے اور قوم و ملک کے اکثر مسائل اسی کا نتیجہ ہیں۔
ہمارے ہاں یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ بد عنوانی کے آسیب نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس سے پہلا تاثر یہ ابھرتا ہے کہ ہم قومی سطح پر انحطاط کا شکار ہیں اور من حیث القوم زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔ معاشرے میں اخلاقی انحطاط کی روش ضرور موجود ہے، لیکن وہ اجتماعی نہیں۔ معاشرے میں آج بھی اخلاقی قدریں زندہ ہیں اور برائی کے خلاف قوم کے اندر ایک فطری نفرت اور رد عمل بھی موجود ہے، جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے جب معاشرتی و سیاسی برائیوں کے خلاف قوم کو کال دی تو عوام نے اس کا مثبت جواب دیا تھا۔ معاشرے میں اخلاقی و قانونی انحطاط کی سب سے عمومی صورت وہ کرپشن ہے، جو سرکاری دفاتر، حکومتی ایوانوں، کاروباری اداروں اور مقتدر طبقوں کی طرف سے روا رکھی جاتی ہے۔ جب توقیر صادق جیسے کردار سامنے آتے ہیں یا ریکوڈک اور رینٹل پاور جیسے منصوبے منسوخ قرار پاتے ہیں تو عوام کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر کرپٹ نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔
کرپٹ افراد ملکی آبادی کا شاید 5 فیصد بھی نہیں، لیکن چونکہ ان کی کرپشن کا دائرہ پورے ملک پر محیط ہوتا ہے یا دوسرے لفظوں میں وہ 95 فیصد آبادی کو اپنے اشاروں پر نچانے کے اختیار سے بہرہ مند ہوتے ہیں، اس لئے یوں لگتا ہے کہ پوری قوم کرپٹ ہو گئی ہے اور تمام ادارے اخلاقی زوال کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ اس تاثر کا سب سے بڑا فائدہ وہ طبقہ اٹھاتا ہے، جو دراصل اس کرپشن اور اخلاقی انحطاط کا خود ذمہ دار ہے۔ وہ اس تاثر میں خود کو چھپا کر اپنا کام جاری رکھتا ہے اور قوم اپنا اصل دشمن تلاش کرنے کے لئے اندھیرے میں ہاتھ پاﺅں مارتی رہتی ہے۔ ملک کے کروڑوں دیہی کسان، مزدور، سفید پوش، مڈل کلاسئیے، چھوٹے دکاندار اور قلم پیشہ ہنر مند کرپٹ نہیں، وہ کرپشن نہیں کرتے، لیکن کرپشن کے جبر کا شکار ضرور رہتے ہیں۔ کرپشن اور اخلاقی انحطاط میں ڈوبے ہوئے مگر مچھ ان کے حقوق، خوشیاں اور خواہشیں نگل جاتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اجتماعی طور پر کرپٹ ہونے یا اجتماعی انحطاط کا پروپیگنڈہ اس لئے ایک حکمت عملی کے تحت کیا جاتا ہے کہ کرپٹ مافیا، جس نے بد عنوانی کے ذریعے ملک میں ذاتی مفادات حاصل کئے ہیں، اپنے مکروہ اعمال پر پردہ ڈال سکے ۔
آج یہ سوچ کر ایک عام پاکستانی حیران ہوتا اور اس کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کرپشن کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر آگیا ہے۔ ایک محدود سے کرپٹ طبقے نے اپنی بد اعمالیوں کے ذریعے ملک کی بدنامی کا جو سامان پیدا کیا ہے، اس میں ایک عام پاکستانی کا کوئی کردار نہیں۔ ایسے پاکستانیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور در حقیقت وہی اس ملک کے حقیقی خیر خواہ اور جاں نثار بھی ہیں۔ یہ عام پاکستانی کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف اپنی اپنی سطح پر صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آتے ہیں، لیکن چونکہ ان کی آواز رہنماﺅں کے ذریعے اجتماعی قوت میں ڈھلنے سے قاصر ہے کہ وہ سب مفادات کی وجہ سے عوام کی دوسری جانب کھڑے ہیں، اس لئے عوام کی کوئی نہیں سنتا اور وہ طبقہ غالب رہتا ہے، جو اگرچہ مٹھی بھر ہے، لیکن ان کے مقابل پوری طرح ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، اگر کروڑوں مزدور، ہاری، کسان، محنت کش، متوسط طبقے کے افراد اپنے اندر اجتماعی شعور پیدا کر لیں اور کرپٹ مافیا کا احتساب کریں تو یقینا اس تاثر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
میرا دل اس بات کو نہیں مانتا کہ معاشرے میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں ایک عدد اقلیتی طبقے نے، جو ملکی معیشت پر بھی حاوی ہے اور نظام پر بھی قابض ہے، سارا بگاڑ پیدا کر رکھا ہے۔ اگر اس طبقے کا صحیح معنوں میں احتساب کیا جائے تو کرپشن اور نام نہاد اخلاقی انحطاط کی چادر قوم کے سر سے اتاری جا سکتی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خود حکومتوں نے کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی، تفتیش میں روڑے اٹکائے اور لٹیروںکو تحفظ فراہم کیا۔ کوئی بھی روایت کسی معاشرے میں دو طرح سے پنپتی ہے۔ پہلے عوام اپناتے ہیں، پھر خواص بھی اپنا لیتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی روایت کا آغاز طبقہ امراءسے ہوتا ہے جو بعد میں عوام الناس تک پہنچ جاتی ہے۔ جہاں تک ہمارے معاشرے میں کرپشن اور قانون شکنی کا تعلق ہے تو اس کی روایت کا آغاز اوپر سے ہوا ہے۔ عوامی نمائندوں، بیورو کریسی، بڑے بڑے صنعت کاروں، حکمرانوں اور دیگر مراعات یافتہ طبقوں نے اس کا نہ صرف آغازکیا، بلکہ اس میں ملوث افراد کو تحفظ دے کر اس روایت کو پروان چڑھایا۔ یہ چند طبقے ہی قوم نہیں ہوتی، قوم تو ایک وسیع مفہوم رکھنے والی اصطلاح ہے ،تاہم سیاستدان اور بیورو کریسی چونکہ معاشرتی نظام پر حاوی ہوتی ہے، اس لئے ان کا وضع کردہ کلچر اور رویہ پوری قوم پر حاوی ہو جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ان مراعات یافتہ طبقوں میں بھی ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس نظام اور رویے پر کڑھتے ہیں، اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور کرپشن کو اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ سمجھتے ہیں، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح ان کی صدا بھی کوئی نہیں سنتا،کیونکہ اس نظام سے فیض یاب ہونے والے محدود طبقے نے اپنی جڑیں بہت مضبوط اور گہری کر رکھی ہیں....قوم کے بارے میں یہ تاثر بھی غلط ہے کہ اس کے اس کرپشن اوراخلاقی انحطاط کو فکری و شعوری سطح پر قبول کر لیا ہے اور اب یہ رویے سکہ رائج الوقت بن چکے ہیں۔ عوام ذہنی اور دلی طور پر آج بھی اس کرپشن کے خلاف ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت یہ نعرہ ضرور لگاتی ہے کہ وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی.... اور تو اور کرپٹ سے کرپٹ پولیس افسر کو بھی اپنی تعیناتی کے بعد یہ بیان ضرور دینا پڑتا ہے کہ وہ کرپشن کو محکمے میں برداشت نہیں کرے گا، کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنی ہیں تو بد عنوانی کا تاثر دور کرنا ہو گا۔
عوام کرپشن کو آج بھی ایک ایسی برائی سمجھتے ہیں جو نہ صرف ان کے اسلام کی روایات کے خلاف ہے، بلکہ ان کی دینی تعلیمات سے بھی متصادم ہے۔ عوام آج بھی اس مسیحا کی راہ دیکھ رہے ہیں جو پردئہ غیب سے نمودار ہو کر انہیں معاشرے میں جڑ پکڑنے والی برائیوں سے نجات دلا دے۔ قوم کے اجتماعی طور پر اخلاقی انحطاط کے شکار نہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ نعرہ لگانے والے جانتے ہیں کہ وہ اس پر عملدرآمد نہیں کر پائیں گے، کیونکہ سب مافیاز تو خود سیاسی آشیر باد سے پروان چڑھے ہیں، مگر اس کے باوجود سب سیاسی جماعتیں، حکمران اور تمام سیاسی رہنما جانتے ہیں کہ عوام کو اگر کسی چیز سے نفرت ہے تو وہ یہی کرپشن ہے۔ عمران خان کی بے پایاں مقبولیت کی ایک بڑی وجہ بھی یہی بنی ہے کہ انہوں نے کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ جب عوام کرپشن کے خلاف ہیں اور اسے دیس نکالا دینے کی خواہش بھی رکھتے ہیں تو پھر یہ برائی ختم کیوں نہیں ہو رہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عوام کی طاقت کو بالا دست طبقوں نے ایک سازش کے تحت لسانی، گروہی، نسلی، علاقائی، سیاسی اور طبقاتی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کرپشن اور مفادات کے پجاری ایک طرف اور متحد ہیں، پوری قوم دوسری طرف ہے، مگر ٹکڑوں میں بٹی ہوئی۔ عوام کو بڑے شاطرانہ طریقے سے ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف بھڑاس نکال کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا، حالانکہ ان کا اصل دشمن کوئی اور ہے۔ ہمارے سارے مسائل پر غور کیا جائے تو اس کرپشن کے چشمے سے پھوٹے ہیں۔ کراچی میں بدامنی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر کنٹینر سمگلنگ کیس پر جو کمیشن بنایا گیا تھا، اس نے بھی یہی رپورٹ دی کہ کرپشن کی وجہ سے اسلحہ کی سمگلنگ بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ گویا ہمارے امن کا دشمن بھی کرپشن میں چھپا بیٹھا ہے، جہاں بھی نظر ڈالیں ڈانڈے اس کرپشن سے ملتے نظر آتے ہیں ،سو اگر حکمرانوں کی نیت صاف ہے تو انہیں کرپشن کے خاتمے کو اپنے ایجنڈے میں اولیت دینی چاہیے۔ چیئر مین نیب کا فوری تقرر ہی نہیں کرناچاہیے، بلکہ ایسا ماحول بھی پیدا کرنا چاہیے کہ کرپٹ عناصر، سیاست یا حکومت کے پروں میں پناہ لینے کے قابل نہ رہیں، یہ کام صحیح معنوں میں آگے بڑھا تو ملک کے دیرینہ مسائل حل ہوتے چلے جائیں گے۔ ٭