کراچی امن کیس اور دہشت گردی ترمیمی ایکٹ
سپریم کورٹ نے کراچی کے33ہزار665مفرور ملزمین کی گرفتاری اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ کراچی رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری نے یہ حکم دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ملائشیا طرز کا آپریشن کیا جائے۔ چیف جسٹس نے اپنی آبزرویشن میںکہا کہ کراچی کے گلی محلوں میں ان اشتہاری اور مفرور ملزموں اور 1500 دہشت گرد قرار دیئے جانے والے ملزمان کا آزادانہ گھومنا خطرناک صورتحال ہے۔ اتنی بڑی تعداد میںاشتہاری ملزمان کے شہر میں ہونے اورپولیس کے دہشت زدہ ہونے سے امن کیسے ممکن ہے۔سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ سندھ حکومت فوری طور پر شہر سے غیر قانونی اسلحہ کے خاتمے کے لئے بڑے پیمانے پر تشہیری مہم چلائے، عوامی آگاہی کے لئے اخبارات میں اشتہارات دیئے جائیںکہ جن کے پاس غیر قانونی اسلحہ ہے وہ فوری طور پر جمع کرا دیں،15روز کے اندر بڑے پیمانے پر شہر کو اسلحہ سے پاک کرنے کا محاذ کھول کر آپریشن کریں۔اس مہم اور 33ہزار سے زائد اشتہاریوں اور پےرول پر رہا کئے جانے والے ملزمان کی گرفتاریوں کے لئے اگر ضرورت پڑے تو سندھ سے پولیس کی اضافی نفری منگوائی جائے۔اس کے لئے پولیس اپنی مدد کے لئے رینجرز سے رہنمائی حاصل کرے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مسئلہ کی اہمیت کا احساس ہونا خوش آئند ہے، لیکن کر اچی میں مستقل امن کے قیام کے لئے دنیا کے ماہرین سے مشورہ کیا جانا چاہئے۔ شہر میں جنگ لسانی ہی نہیں، بلکہ شہر پر قبضہ کرنے کے لئے کی جا رہی ہے،جو کراچی کی معیشت کو اپنے کنڑول میں لئے جانے کی جنگ ہے۔ ایک ہڑتال کی گئی، جس سے ملک کو وسیع مالی نقصان ہوا ،اس کا حساب کون دے گا؟ پولیس تمام نو گو ایریاز بھی ختم کرائے۔ رینجرز اور وفاق کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹس سے واضح ہوتا ہے کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے اور یہ کون کر رہا ہے؟ رینجرز کی رپورٹس میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کے ذکر کے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ ان رپورٹس کو عام نہ کیا جائے، کیونکہ ایسی رپورٹس سے معاشرے میں بے چینی پھیلے گی، مگر ہمارے فیصلہ پر اب عمل درآمد شروع ہوچکا۔سپریم کورٹ جرائم پیشہ لوگوں کے مکمل خاتمے تک صورتحال کو مانیٹر کرے گی۔
ادھر وفاقی کابینہ نے کراچی میں رینجرز کو اختیارات دے دیئے ہیں کہ وہ وارننگ دے کر دہشت گردوں ، ٹارکٹ کلرز اور بھتہ خوروں کو گولی مار دیں۔ اس سلسلے میں انسداد دہشت گردی کا ترمیمی بل منظور کر لیا گیا ہے۔ اس کے تحت تحقیقاتی ادارے ملزم کو تفتیش کے لئے نوے روز تک حراست میں رکھ سکیں گے اور عدالت 30روز میں فیصلہ کرے گی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں ہر قیمت پر امن قائم کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے کراچی کے مفرور ملزموں کی گرفتاری اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کے حکم سے جہاں آپریشن میں مصروف ادارے اب اس معاملے کو زیادہ سنجیدگی سے لیں گے، وہاں کراچی کے پرامن شہریوں کو بھی اس سارے آپریشن کے موثر اور اپنے تحفظ کے سلسلے میں اطمینان ہو سکے گا۔ ملزمان کی جائیدادوں کی ضبطی کا حکم بھی گرفتاریوں میں تیزی لانے میں اہم ثابت ہو گا۔ شہر میں کھلے عام اس بڑی تعداد میں مطلوبہ افراد کا دندناتے پھرنا ، شہریوں کے سر پر مسلسل ننگی تلوار لٹکنے کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم سے عام شہریوں کو بہت حوصلہ ملے گا ، سپریم کورٹ کی طرف سے ناجائز اسلحہ کی برآمدگی کے سلسلے میں اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو خبردار کرنے اور اسلحہ 15روز کے اندر حکومت کے پاس جمع کرانے کا اعلان کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔اس سے بھی بہت سے چھوٹے موٹے مجرم اور عام شہری از خود اسلحہ حکومت کے پاس جمع کرائیں گے۔ اس کے بعد اسلحہ جمع نہ کرانے والے عادی ملزم ، بھتہ خور اور دہشت گرد باقی رہ جائیں گے، جن کے ساتھ سختی سے نمٹا جاسکے گا۔ اسلحہ جمع کرانے کی اشتہارات میں دی گئی مہلت ختم ہونے کے بعد اسلحہ برآمد ہونے کی صورت میں مجرموں کو فوری اور عبرتناک سزا ئیں ملنی چاہئیں۔ پھر اس کی تشہیر کی جائے اور کچھ لوگوں کو عبرت کا نشان بنانے کے بعد اسلحہ جمع کرانے کے لئے مختصر عرصہ کی مزید مہلت دے دی جائے تو اس سے بھی بھاری مقدار میں اسلحہ سرکار کے پاس چھوٹے موٹے مجرم از خود جمع کرا دیں گے،جس سے باقی کی کارروائی کے لئے قانون نافذ کرنے والوں کا کام بہت آسان ہو سکتا ہے۔
عدالت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے دنیا بھر کے تجربات سے استفادہ کرنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ملائشیا طرز کا آپریشن کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے ملائشیا میں ” ملائیشین سپیشل آپریشنز فورسز “ کا قیام عمل میں آیا ہے ،جو اس ملک نے دوسرے ملکوں میں ہونے والی دہشت گردی سے سبق لیتے ہوئے ان کے تجربات کی روشنی میں قائم کی ہیں۔ یہ فورسز دس پیرا ٹروپر ز فورسز پر مشتمل ہیں۔یہ ایک ایلیٹ رپپڈ ڈپلائمنٹ بریگیڈ ہے۔ یہ فورسز ملکی سلامتی کے مختلف کاموں کی ذمہ دار ہیں اور ان کی ذمہ داری میں دہشت گردوں سے نمٹنا خصوصی طور پر شامل ہے۔ اس فورس کا ایک حصہ ریسکیو اور ہنگامی حالا ت میں لوگوں کی مدد کرنے کا کام کرتا ہے۔ اپنے دورہ ترکی سے قبل وزیراعظم نے پنجاب حکومت سے فوری طور پر انہی بنیادوں پر انسداد دہشت گردی فورس تیار کرنے کے لئے کہا تھا۔ انہوں نے ہدایت کی تھی کہ اب اس میں کسی طرح کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔سپریم کورٹ نے بھی اب امن کو مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے ضروری اقدامات پر زور دیا ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ کراچی میں حکومت اور امن قائم کرنے کے لئے آپریشن میں مصروف اداروں سے کسی کو ناجائز اسلحہ سرکار کے پاس جمع کرانے کے لئے اشتہارات دینے کا خیال نہیں آیا۔اس کے لئے بھی ہدایات سپریم کورٹ کو دینا پڑیں۔ یہ اور سپریم کورٹ کے بہت سے دوسرے احکامات سے واضح ہوتا ہے کہ ادارے بڑے پیمانے پر پیشگی منصوبہ بندی اور باہمی مشاورت اور روابط کے باوجود اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے کس طرح بعض بنیادی ضرورتوں سے غافل رہتے ہیں۔ان کی طرف سے جو کام از خود کر لئے جانے چاہئیں ان کے لئے بھی عدالت کو احکامات جاری کرنے پڑتے ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کراچی آپریشن کے موقع پر کراچی بدامنی کیس کی کراچی رجسٹری میں سماعت کس طرح سے عمل میں مصروف اداروں کی سمت کو مزید درست اور موثر بنانے میں معاون ہورہی ہے۔ سیاسی قیادت کی طرف سے باہم صلاح مشورے اور اتفاق سے اس آپریشن کی منظوری اور کسی جماعت کی طرف سے اس کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہ ڈال سکنا کراچی کے لوگوں کے لئے باعث اطمینان ہے۔ اب رینجرز اور پولیس کے لئے سپریم کورٹ کے احکام رہنمائی ان کے راستے کی رکاوٹیں دور کرنے اور مسائل کی اصل وجہ کی نشاندہی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان پر عملدآمد کے بعد کراچی میں امن قائم کرنے کی کوششیں یقینا مزید موثر ہوسکیں گی۔
وفاقی کابینہ کی طرف سے دہشت گردی ایکٹ کے ترمیمی مسودہ کی منظوری کے بعد ٹارگٹ کلزز، بھتہ خوروں اور دہشت گردوں سے نمٹنے والے اداروں کو اپنا کام موثر طریقے سے سرانجام دینے میں مدد ملے گی۔ اس طرح کے بھیانک جرائم میں ملوث ملزموں کے مقدمات کا فیصلہ جلد ہو سکے گا اور اب دہشت گرد اور قانون شکن لوگ خود کو قانون نافذ کرنے والوں سے کسی طرح زیادہ مضبوط محسوس نہیں کر سکیں گے۔ اب قانون کے محافظ اپنے ہاتھ بندھے ہوئے محسوس نہیں کریں گے۔ انہیں خود پرحملہ کرنے والوں کو وارننگ دینے کے بعد انہیں گولی کا نشانہ بنانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس طرح عام شہریوں کے تحفظ اور بے گناہوں کو آپریشن کے منفی اثرات سے محفوظ کرنے کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے ہم دہشت گردوں ،ملک دشمنوں اور دوسرے سنگین جرائم کے مرتکب لوگوں کے ساتھ ایک کھلی جنگ میں مصروف ہیں۔ ہمارا دشمن کئی روپ میں ہمارے ساتھ جنگ میں مصروف ہے۔ دشمن کے خریدے ہوئے اور اس کے تربیت یافتہ افراد بھاری اسلحہ اور وسائل کے ساتھ ہمارے سیکیورٹی اداروں سے نبرد آزما ہیں۔ ہم نے اپنے امن وامان کو تباہ کرنے اور اپنی سیکیورٹی فورسز پر حملے کرنے والے دشمن کے سپاہیوں سے لڑتے ہوئے بھی آج تک ان کے ساتھ اپنے ہی بھٹکے ہوئے لوگوں کا رویہ اپنائے رکھا ہے، لیکن عام جرائم اور جنگی جرائم میں فرق ہے ۔جنگ میں مصروف دشمن کے ساتھ جنگ ہی کی حالت والے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب دشمن تمام ممکنہ وسائل کے ساتھ ہمیں تباہ کرنے کے لئے ہم پر جھپٹ پڑے اس وقت ہمیں اس کا مقابلہ کرنے اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، قانون اور اصول جنگ جیتنے کے بعد دیکھے جاتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کی طرف سے سیکیورٹی اداروں کے بندھے ہوئے ہاتھ کھولنے کا کام بہت تاخیر سے ہوا، لیکن اس وقت جبکہ کراچی میں مستقل اور پائیدار امن کے قیام کے لئے اس کی از حد ضرورت تھی ، ترمیمی ایکٹ کی منظوری ایک احسن اقدام ہے ، جس کے مثبت نتائج انشاءاللہ بہت جلد قوم کے سامنے ہوں گے۔ ٭