فوج اور عدلیہ کے خلاف بیان بازی آئین کی خلاف ورزی ہے
پاکستان تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے فوج اور عدلیہ پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ بقول عمران خان وہ فوج کے بغیر نہیں چل سکتے اور عمران خان ایک منصوبہ بندی کے تحت اسلام آباد آئے ہیں ،جس کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا ہوا ہے۔ معاملات طے کر لئے ہیں، ستمبر میں نئے الیکشن ہوں گے۔یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ موجودہ سیاسی صورت حال میں فوج اور آئی ایس آئی، تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی پشت پناہی کررہی ہیں۔عمران خان نے کہا تھا کہ ہم فوج کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ”وہ” کہتے ہیں کہ طاہر القادری کے ساتھ چلیں.... بقول جاوید ہاشمی خود عمران خان نے مجھے اور کور کمیٹی کو کہا فیصلہ ہو چکا، معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا، جج 3 ماہ میں الیکشن کا فیصلہ دیں گے ۔ اسی طرح فوج کے بارے میں بھی غلط بیانات دیئے کہ ایک سابق جرنیل کئے، جس نے پرویز مشرف دور میں مجھ پر مظالم کئے اور بعد میں معافی بھی مانگی تھی ، کہا کام ہونے والا ہے، اس بارے میں جب میں عمران خان سے پوچھتا تو وہ کہتے مارشل لاء نہیں آئے گا، عدالت فیصلہ دے گی، بات ہو چکی ہے۔
عدلیہ اور فوج دونوں کے لئے یہ الزام توہین آمیز ہے۔ عدلیہ پر اس سازش میں ملوث ہونے کا الزام غالباً اس لئے لگایا جا رہا ہے کہ اس کا اعتبار زائل کیا جا سکے جو 2007ءسے 2009ءتک ملک گیر جدوجہد سے قائم ہوا، تاہم عدلیہ پر اس الزام کی حقیقت کا پردہ چاک کرنے کی جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ اس سے گریز نہیں کر سکتی۔ اسی طرح فوج کو بھی ان لوگوں کا محاسبہ کرنا ہو گا جو بدستور اس پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ حکومت کو بالآخر چلتا کرے گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو فوج پر آئین سے بغاوت کا الزام لگاتا ہے، اس کا ہمدرد کیسے ہو سکتا ہے؟ جہاں تک حکومت کی بات ہے تو پارلیمنٹ کے فلور پر وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ آرمی چیف کو ملاقات کی درخواست تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سربراہان نے خود کی تھی، جس سے دونوں دھرنا پارٹیوں نے انکار کیا اور آئی ایس پی آر نے بھی اس بات کی وضاحت کی کہ حکومت نے فوج کو ثالثی کے لئے کہا تھا۔پاک فوج ایک غیر جانبدار ادارہ ہے۔ فوج کبھی سیاسی جماعتوں کی درخواست پر ثالث نہیں بنتی۔
وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا ہے اور اس پر ا±ن کا مواخذہ ہونا چاہیے۔ ان کا یہ جھوٹ ان کو فوری طور پر بر طرف کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔جھوٹ بولنے پر امریکہ کے صدر تک برطرف کئے جاچکے ہیں۔ وزیراعظم اور ان کے رفقاءپارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں۔ جہاں تک ہمارے حکمرانوں کا تعلق ہے تو جہاں حقیقی جمہوریت ہو وہاں جھوٹ بولنے پر وزراءسے استعفے لے لئے جاتے ہیں ،لیکن ہمارے وزیراعظم نے اسمبلی میں فوج کے متعلق جھوٹ بولا، اب انہیں اخلاقی طور پر وزیراعظم تو کیا ممبر قومی اسمبلی رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاو¿ن پر حکومت کے یک طرفہ جوڈیشل کمیشن نے بھی شہبازشریف کی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ،لیکن اس پر بھی شہبازشریف نے استعفا نہیں دیا ، کیا نوازشریف کو مسلم لیگ(ن) میں کوئی شریف آدمی نہیں ملتا ،جسے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جائے ، تاکہ دھاندلی اور سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کی شفاف تحقیقات ہو سکیں۔
حکمران جس جمہوریت کی بات کرتے ہیں وہ خاندانی بادشاہت ہے، جس نے عوام کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ موجودہ حکومت اس وقت جس بحران میں پھنسی ہوئی ہے، اس کا بڑا حصہ خود حکومت کا پیدا کردہ ہے۔ وہ نئے حالات میں اپنے ہی ہاتھوں لگائی ہوئی گرہیں کھولنے میں مصروف ہے۔ کچھ گرہیں کھل گئی ہیں، کچھ ڈھیلی پڑ گئی ہیں اور کچھ ابھی تک کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔حکومت کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے ہی بنے ہوئے جال میں الجھی ہوئی ہے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہو گی کہ پاکستان میں یہ حادثہ ماضی میں کئی بار ہو چکا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بار ملکی وحدت و سالمیت پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ کیا اسے ماضی کی طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے گا؟.... ہمیں ڈر ہے کہ ایسی طالع آزمائی اپنی بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہو گی۔ ہم یہ الفاظ رسمی انداز میں نہیں کہہ رہے ،بلکہ خوفناک امکانات کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتے ہیں۔ آئین شکن عناصر کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ عوام مارشل لاءکی حقیقت کو خوب سمجھتے ہیں۔ کوئی ایسا اقدام قبول نہیں کیا جائے گا جو فی الحقیقت ماورائے آئین ہو۔ سیاسی رہنماو¿ں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں مضبوط مو¿قف اختیار کریں۔