جان بچانے والی ادویات مہنگی کیوں؟
بازار میں جان بچانے والی اور دوسری ادویات کی نایابی اور مہنگائی پر عدالت عظمیٰ کے ایک فاضل جج نے بھی تنقید اور تشویش کا اظہارکیا ہے کہ10روپے والی دوا 2ہزار میں بیچی جا رہی ہے۔پاکستان میں ہر شعبہ میں ایک منافع خور مافیا پایا جاتا ہے جو وقتاً فوقتاً اشیاء ضرورت حتیٰ کہ اشیاء خوردنی کی قلت پیدا کر کے نرخوں میں من مانا اضافہ کر لیتا ہے۔اس سے عوام پر گرانی کا بوجھ پڑتا ہے، آج تک حکومت اور انتظامیہ اس صورت حال پر قابو نہیں پا سکی۔یہ بھی درست ہے کہ پاکستان میں علاج بھی بتدریج مہنگا ہوتا چلا گیا اور ملک میں ادویات کی قیمتیں مقرر کرنے کا ایک نظام ہونے کے باوجود ادویات ساز کمپنیاں اپنی مرضی سے دام بڑھا لیتی ہیں، ملکی ادویات ساز کمپنیوں کی شکایت ہے کہ ان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی فیکٹریوں میں تیار کردہ ادویات کے نرخ از خود بڑھا سکیں تاہم بین الاقوامی ادویات ساز ادارے جب چاہیں اپنی ادویات کے ریٹ اپنی مرضی کے مطابق بڑھا لیتے ہیں۔ قیمتیں بڑھانے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ پہلے کسی دوا کی قلت کرو اور پھر اس کی قیمت بڑھا دو۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ گزشتہ دِنوں یہ خبریں شائع ہو چکیں کہ جان بچانے والی ادویات اور اہم آپریشنوں کے لئے بعض آلات کی مصنوعی قلت پیدا کردی گئی اور اب بھی مسلسل ایسا ہو رہا ہے، حکومت اور حکومتی ادارے ان کے سامنے بے بس ہیں۔اول تو ایک ہی ملک میں ادویات کی قیمتوں میں تعین کا دہرا نظام ہی درست نہیں۔ اس پر جان بچانے والی سستی ترین ادویات کے نرخ آسمان پر پہچا دیئے جائیں۔ حکومت کو تفصیل سے اس مسئلے کا جائزہ لے کر اسے مستقل طور پر حل کرنا چاہئے جو عوام کے حق میں ہو۔