لاہور پریس کلب کا ارکان کےلئے تفریحی پروگرام
بھارت کی فلمی صنعت میں ہر دور مختلف حوالوں سے نمایاں رہا ہے۔ آغاز سے ہی یہاں ایک وقت میں کئی حسن کی دیویاں فلم بینوں کے دِلوں پر راج کرتی رہی ہیں ۔ کتنے ہی اداکار اپنی کردار نگاری کی وجہ سے عوام کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں۔ کتنے ہی کیمرہ مین ہدایت کار، مصنف، نغمہ نگار اور موسیقار اپنے فن کی وجہ سے شائقین فلم سے داد وصول کرتے رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں فلم سازی کے آغاز سے لے کر اب تک ایک صدی کے دوران یہاں فلم سازی کا عمل تیز سے تیز تر ہوتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر شعبے میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی محسوس نہیں کی گئی، بلکہ ٹیلنٹ کو نکھرنے کے بھر پور مواقع میسر آتے رہے ہیں۔ یہاں کی فلمی صنعت میں حسن کی دیویاں خاموش فلموں کے دور سے اپنے فن اور حسن جانفرا کا جادو جگا رہی ہیں۔ ہم نے جب پردہ سکرین سے رابطہ قائم کیا تو مدھو بالا، وجیتی مالا، نرگس ، نوتن، مالا لسہنا، نمی، کلپنا کار تک، ششی کلا، لینا چندرا اور کر اور بہت سی حسیناﺅں کو فلموں میں کردار نگاری کرتے ہوئے دیکھا بعض اداکاروں نے صرف چند فلموں میں کام کرکے ہی فلمی صنعت کو خیر باد کہہ دیا بعض طویل عرصہ تک فلم بینوں کے دلوں کو گرماتی رہیں، لیکن اب وہ سب ماضی کا ناقابل فراموش حصہ بن چکی ہیں ان کے بعد کے دور میں اداکارہ ہیما مالنی کو اپنی ساتھی اداکاراﺅں میں نمایاں پوزیشن حاصل ہوئی اور اپنی بھرپور جوانی اور غزالی آنکھوں کی سحر انگیز چکا چوند سے فلم سازوں ہدایت کاروں اور فلم بینوں کو چونکا دیا اور سب نے مشترکہ طور پر اسے ڈریم گرل کا لقب دیا۔ ڈریم گرل یعنی خوابوں کی شہزادی۔ ایک ایسا حُسن جو ہر نواجون کے خواب دلنشیں کا محور ہو۔ حد تو یہ ہے آج ہیما مالنی اپنی ادھیٹر عمری میں بھی اپنی قیامت خیز جوانی کا پتہ دیتی ہیں۔ ان سے تھوڑا عرصہ بعد مادھوری ڈکشٹ متعارف ہوئیں اور انہوں نے اپنی خوبصورتی اور فنی محاسن کے ذریعے اپنی ایک ایسی انفرادیت قائم کی جو اب تک قائم ہے۔ انہوں نے بھی ہیمامانی کی طرح خود کو بڑی اچھی طرح فٹ رکھا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ اداکارہ ایشوریہ نے فلمی صنعت میں قدم رکھا۔ اپنی انفرادی شخصیت اور ملکوتی حسن کے باعث انہوں نے بھی فلم بینوں کو دیوانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی شادی اور ایک بیٹی کے پیدا ہونے کے بعدبھی ان کے دیوانے ان کو فلموں میں بطور ہیروئن دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ان کے بعد یا ساتھ ساتھ لارادتہ ، کرشمہ کپور اور کرینہ کپور کے علاوہ بہت سی اداکاراﺅں کے جھرمٹ میں کترینہ کیف، سونا کشی اور دیپکا پڈکون نے فلمی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ان تمام اداکاراﺅں میں اس وقت کترینہ کیف، سوناکشی کرینہ کپور اور پڈکون میں سخت مقابلہ جاری ہے یہ چاروں اداکارائیں اس وقت بھارت کی فلمی صنعت میں ہاتھوں ہاتھ لی جارہی ہیں، لیکن پڈکون کم فلموں میں کام کرنے کے باوجود بینوں میں زیادہ فیورٹ ہوچکی ہےں اور بعض فلم مبصرین ہیما مالنی کے بعد پڈکون کو ڈریم گرل کا درجہ دے رہے ہیں.... اس کی سب سے بڑی وجہ اس کی سکرین بیوٹی ہے، جو اسے ساتھی اداکاراﺅں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کی اداکاری اور کردار نگاری میں جو اعتماد جھلکتا ہے۔ وہ بہت کم اداکاراﺅں کے ابتدائی دور میں نظر آیا کرتا ہے۔
بھارت کی نئی ریلیز ہونے والی فلم ”فائنڈنگ فینی “ ”Finding Fanny“ میں بھی پڈکون کی اداکاری آسمان فن پر ایک نئے سورج کے طلوع ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ بالی وڈ میں ان دنوں اکثر فلمیں بے سروپا کہانیوں پر بنائی جا رہی ہیں، لیکن اس افراتفری کے عالم میں بعض لوگ فلم بناتے ہوئے واقعی سوچ بچار اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ فلم دیکھنے میں ایک تجرباتی اور آرٹ فلم دکھائی دیتی ہے، لیکن اس میں کمرشلزم کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس فلم کی کہانی مختصر کرداروں کے گرد گھومتی ہے اس لئے کہانی میں کوئی الجھاﺅ نہیں ہے۔ ایک زمانے میں بھارت میں زیادہ سے زیادہ آرٹسٹوں پر بنی فلم بنانے کا طریقہ رائج رہا ہے، لیکن اس میں آرٹسٹوں کی بھرمار کی وجہ سے کرداروں کے انٹروڈکشن ان کے ارتقا اور وائنڈ اپ پر توجہ نہیں دی جاتی رہی جس سے اچھے سے اچھا فن کار بھی فلم کی کہانی میں ایکسٹرا نظر آتا ہے اس لئے کم کرداروں کی حامل فلم میں کہانی پر ورک کرنے اور اداکاروں سے کام لینے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ اس فلم میں پڈکون کے ساتھ ایک نئے ہیرو ارجن کپور اور نصیرالدین شاہ کے کردار خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ادا کار نصیرالدین شاہ 46 سال سے اپنی محبوبہ فینی کی تلاش میں ہے اور اس کی بیٹی بتاتی ہے کہ نصیر الدین شاہ ”فینڈو“جس عورت سے وصل کی خواہش میں تڑپتا رہا اور جس کے لئے اس نے زندگی وقف کر دی اس نے کبھی اس کا نام تک نہیں لیا تھا.... یہ کہانی انگریزی ناول سے ماخوذ ہے اور اس پس منظر میں اسی معاشرے کے خدوخال کو اجاگر کرتے ہوئے مناظر کی عکس بندی کی گئی ہے۔ فلم کی کہانی میں کوئی چونکا دینے والا موڑ نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ہدایتکار کی فلم پر گرفت انتہائی مضبوط ہے اور دیکھنے والا اس کے ایک ایک منظر اور مکالمے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
اس فلم کی نمائش کا اہتمام لاہور پریس کلب کی انتظامیہ نے پریس کلب کے ارکان اور ان کی فیملیز کے لئے مقامی سنیما میں کیا تھا.... اس نفسا نفسی مہنگائی اور سیاسی ابتری کے زمانے میں پریس کلب کے ارکان کے لئے تفریحی سامان فراہم کرنا بلاشہ تعریف کے لائق ہے۔ یہی نہیں پریس کلب انتظامیہ تفریحی پروگراموں کے علاوہ ارکان اور انکی فیملیز کے لئے علاج معالجہ کے سلسلے میں بھی اہتمام کرتی رہتی ہے۔ اس طرح سے انتظامیہ نے پریس کلب کو ایک انتہائی سود مند ادارہ بنا کر اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں انفرادیت کا جو مظاہرہ کیا ہے یا مسلسل کررہی ہے اس کی گواہی تو اب پریس کلب کی عمارت کے درودیوار بھی دے رہے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ موجودہ انتظامیہ کے عہدےداروں کی صلاحیتوں سے استفا دے کی روایت کو آگے بڑھا کر ان کی حوصلہ افزائی جاری رکھی جائے۔