”کس امیدوار کو ووٹ دیں گے“ تحریک انصاف کا ووٹروں کے گھروں پر دستک دے کر استفسار

”کس امیدوار کو ووٹ دیں گے“ تحریک انصاف کا ووٹروں کے گھروں پر دستک دے کر ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات (حلقہ این اے 122، این اے 154 ، پی پی 147 )کے لئے جاری کردہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کو لاہو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے، اس سلسلے میں درخواست حلقہ پی پی 147 کے صوبائی ضمنی انتخاب کے لئے تحریک انصاف کے امیدوار شعیب صدیقی نے دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مئی2015ءکو این اے 108، پی پی 196اور پی کے56 کے ضمنی انتخابات کے حوالے سے ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا تھا، جس میں وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، ارکانِ اسمبلی، سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور آئینی عہدیداروں کو ضمنی انتخابات کے امیدواروں کی انتخابی مہم چلانے سے روک دیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا یہ نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا تھا، اب الیکشن کمیشن نے جو نیا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اور جو لاہور اور لودھراں کے تین حلقوں کے لئے ہے اس میں پرانے نوٹیفکیشن کو ہی دھرایا گیا ہے۔ درخواست میں اس نئے حکم کو بھی کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
5 مئی کو الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخاب کے متعلق جو ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا اس کے خلاف بھی تحریک انصاف نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر اسے عدالتی حکم کے تحت یہ ریلیف ملا تھا کہ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں دے دیا گیا تھا۔ اور الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، تاہم الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیاسپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو اس بنیاد پر معطل کر دیا کہ تحریک انصاف کی جانب سے کوئی نمائندہ اپنے مقدمے کے دفاع کے لئے پیش نہیں ہوا تھا، سپریم کورٹ نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ مدعا علیہان کو اطلاع دینے کے لئے دو اخبارات میں اشتہار شائع کر ائے جائیں۔ الیکشن کمیشن کا تازہ حکم 16 ستمبر کو جاری ہوا ہے۔اور بظاہر لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے یہ نوٹی فکیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کیا ہے لیکن سپریم کورٹ نے 8 ستمبر کو جو فیصلہ کیا وہ کیس کے میرٹ کی بنیاد پر نہیں ہوا تھا بلکہ اس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ فریق ثانی پیش نہیں ہوا تھا جس کو اطلاع دینے کے لئے اخبارات میں اشتہارات دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب تحریک انصاف کی جو تازہ درخواست ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔ اس کا فیصلہ اس ساری صورت حال کو سامنے رکھ کر کیا جائیگا الیکشن کمیشن کے دونوں نوٹی فکیشن چونکہ ایک جیسے ہیں اس لئے دلائل بھی یکساں ہی ہوں گے بہرحال ہائی کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہو گا۔ وہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں جائیگا جہاں پہلے والا کیس بھی زیر التوا ہے،یہ ایک دلچسپ قانونی جنگ ہے۔مگر زمین پر سیاسی صورت حال یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے امیدواروں کی جارحانہ انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ اور اس مہم کے دوران وہ بعض پولیس والوں کے نام لے لے کر انہیں ہدف تنقید بنا رہے ہیں اور اپنے کارکنوں کو ان کی تصویریں اتارنے کی ہدایت کر رہے ہیں کچھ ایسی ہی تقریریں وہ دھرنے کے دنوں میں بھی کیا کرتے تھے،اور اسلام آباد پولیس کے افسروں کو للکارا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ ان سب سے نپٹ لیں گے ویسے ان کی حکومت ایک صوبے میں تو موجود ہے جہاں وزیر بھی گرفتار ہو رہے ہیں اوریونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور پروفیسر بھی، ابھی کسی پولیس والے کی گرفتاری کی خبر تو نہیں آئی ممکن ہے کوئی گرفتار بھی ہوا ہو، اور پشاور سے لاہور تک خبر نہ پہنچی ہو، جو جرم کرتا ہے اسے گرفتار بھی ہونا چائیے، اور جرم کی سزا بھی قانون کے مطابق ملنی چائیے لیکن جرم بے گناہی کی سزا نہ تو پشاور میں جائز ہے نہ اسلام آباد اور لاہور میں، ممکن ہے پولیس والوں کو انتباہ کے مقاصد کچھ اور ہوں۔جو بھی ہوں گے وہی بہتر جانتے ہوں گے جو انتباہ کر رہے ہیں ہمیں تو اتنا معلوم ہوا ہے کہ لاہور کے حلقہ این اے 122 اورپی پی147 میں تحریک انصاف کے ورکر گھر گھر جا کر ووٹروں سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ وہ کس جماعت کو ووٹ دیں گے، معلوم نہیں الیکشن سے قبل کسی کو ووٹرسے یہ پوچھنے کا اختیار کس نے دیا ہے اور کیا الیکشن کمیشن اس کا کوئی نوٹس بھی لے گا یا نہیں، لیکن دونوں حلقوں کے ووٹر یہ شکایت کرتے ہوئے بہرحال پائے گئے ہیں کہ اس طرح ووٹروں کو بالواسطہ طور پر خوف زدہ کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ اور ایک ملفوف قسم کا پیغام یہ دیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کو ووٹ دو ورنہ” ہم اقتدار میں آ کر نپٹ لیں گے“ پولیس والوں کو تو نام لے کر کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جب کہ ووٹروں کے گھر گھر جا کر انہیں ملفوف پیغام دیا جا رہا ہے ، چلئے ان کی نظر میں پولیس والوں کا تو کچھ قصور بھی ہو گا لیکن سوال یہ ہے۔ان ووٹروں کے بارے میں یہ طریقہ کب سے جائز ہو گیا، الیکشن تو ہمیشہ خفیہ رائے شماری سے ہوتا ہے، الیکشن سے پہلے ہی ایک فریق کا ووٹروں کی رائے معلوم کرنے کا آخر کیا مقصد ہو سکتا ہے ؟

مزید :

تجزیہ -