عمران خان بنام عمر ورک

عمران خان بنام عمر ورک
 عمران خان بنام عمر ورک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔جس جس طرح انتخابی مہم زور پکڑ رہی ہے۔ سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ اسی طرح بلدیاتی انتخابات نے بھی گلی گلی رنگ جمانا شروع کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 122 کا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ خواجہ حسان کے بلامقابلہ منتخب ہونے نے پاکستان تحریک انصاف کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ غبارے سے ہوا کا کیا نکلنا تھا۔ کہ بس تحریک انصا ف میں سب کے اوسان خطا ہو گئے۔ اور اسی حالت میں انہوں نے ایک الزام لگانے کا کھیل دوبارہ شروع کر دیا۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ تحریک انصاف اپنی پارٹی کے اندر اس بات کا احتساب کرتی کہ کس طرح ان سے اتنی اہم نشست خالی رہ گئی۔ پارٹی ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جاتی جنہوں نے دشمن کے ایجنٹوں کو ٹکٹ دے دی۔ لیکن عمران خان نے اس بار بھی میڈیا ٹرائل سے صورتحال پر مٹی ڈ النے کی کوشش کی۔ لیکن یہ ان کی پہلی کوشش نہیں ۔ وہ ہمیشہ ہی اپنی نا کامیوں کو چھپانے کے لئے میڈیا ٹرائل اور الزام تراشی کی سیاست کا سہارا لیتے ہیں۔ شرو ع شروع میں وہ اس میں کافی کامیاب بھی رہے ہیں۔ اس کامیابی نے انہیں مزا بھی دیا۔ لیکن اب ان کا یہ ہتھیار کچھ نا کارہ ہو گیا ہے۔ اور شائد الزامات کی اس سیات میں وہ اثر نہیں رہا ۔ جو پہلے تھا۔


اس بار باری ایس ایس ایس پی سی آئی اے عمر و رک کی آئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے لاہور میں انتخابی مہم کے دوران عمر ورک کو نام لیکر پکارا۔ اور خبردار کیا کہ وہ انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ایک سادہ سوال تو یہ ہے کہ عمران خان کی اس للکار کا مطلب کیا ہے؟ سادہ سی بات ہے کہ وہ عمر ورک کو متنبہ کر رہے ہیں۔ کہ اگر ان کی حکومت آگئی تو وہ عمر ورک کے خلاف انتقامی کارروائی کریں گے۔ اور عمر ورک اس کے لئے تیار ہو جائیں۔


اگر تو عمر ورک پہلے شخص ہوتے جنہیں عمران خان اس طرح للکارتے ۔ یا کوئی الزام لگاتے تو صورتحال یقیناًعمر ورک کے لئے تشویشناک ہو تی۔ لیکن میری رائے میں عمر ورک کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ عمران خان کی یہ عادت سامنے آئی ہے کہ وہ اکثر الزام لگا کر مکر جاتے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف انتخابات میں آر اوز کے ذریعے دھاندلی کروانے کا الزام لگایا ۔ جسٹس (ر) خلیل رمدے کے خلاف بھی اس قسم کے الزام لگائے۔ نجم سیٹھی پر 35 پنکچر لگانے کا الزام لگایا۔ دھرنے کے دنوں میں آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا پر الزام لگائے۔ لیکن ریکارڈ گواہ ہے کہ وہ بعد میں ان میں سے کسی بھی الزام پر قائم نہیں رہے۔ جسٹس (ر) افتخار چودھری اور نجم سیٹھی نے عمران خان پر ہتک عزت کے دعوے دائر کئے ہیں ۔ اور ان دعوؤں کی کارروائی عمران خان کے عدم تعاون کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہی۔


اب عمر ورک کیا کریں۔ نجم سیٹھی اور افتخار چودھری کو کونسا انصاف مل گیا ہے۔ جو وہ بھی اس صف میں کھڑا ہو جائے اور عمران خان پر جھوٹے الزام لگانے پر کارروائی کریں۔ عمر ورک اسی لئے اس پر عمران خان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروئی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بلکہ انہوں نے عمران خان کی تنبیہ کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو حالا ت کی روشنی میں ایک درست فیصلہ ہی لگتا ہے۔ لیکن قانونی طور پریہ فیصلہ درست نہیں ہے۔ عمران خان نے بھی عمر ورک کے خلاف جو الزام لگائے ہیں ۔ انہیں وہ قانون کے کٹہرے میں ثابت کرنے چاہیں۔ اور عمر ورک کو بھی قانون کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے۔


عمر ورک کو ئی سی ایس پی افسر نہیں ہے۔ اس نے پولیس سروس بطور ایک اے ایس آئی جوائن کی تھی۔ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے اس پولیس افسر کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ عمر ورک نے پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ حلقے اس بات کو مانتے ہیں کہ عمر ورک نے دہشت گردی کے خلاف آ پریشن میں اب تک 13 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا ہے۔ اسی لئے وہ اس وقت تحریک طالبان پاکستان کی ہٹ لسٹ پر ہیں ۔ دہشت گردوں نے عمر ورک کے سر کی قیمت لگائی ہوئی ہے۔ اسی لئے وہ شائد واحد پولیس افسر ہیں جنہیں حکومت نے بلٹ پروف گاڑی دی ہوئی ہے۔ یہ اعزاز بھی عمر ورک کو ہی حاصل ہے کہ انہوں نے لاہور میں بلا ء گینگ کو پکڑا ۔ جس سے بیس کر وڑ کی ریکوری ہوئی ۔ اسی طرح پچھلے دنوں ساڑھے سات کر وڑ کی ریکوری بھی عمر ورک کا ہی کارنامہ تھا۔ دو روز قبل کرکٹر محمد حفیظ کی ڈوبی ہوئی رقم بھی عمر ورک نے ہی واپس دلوادی ہے۔ یہ بھی عجیب صورتحال ہے کہ کرکٹر محمد حفیظ عمر ورک کے مداح اور کرکٹر عمران خان عمر ورک کے دشمن ہیں۔


عمر ورک لاہور پولیس کی ایک کمال شخصیت ہیں۔ اے ایس آئی سے ایس ایس پی کے عہدہ تک پہنچے والے عمر ورک چوروں ڈکیتوں کو پکڑنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ ان کا کیس حل کرنے کا اپنا ہی انداز ہے۔ ایک بچے کے اغواء کا کیس جب حل نہیں ہو رہا تھا ۔ تو انہوں نے اپنی ٹیم کو دیا کہ وہ تب تک نہ نہائیں گے اور نہ ہی کپڑے بدلیں گے جب تک کیس حل نہیں ہو گا ۔ اور پھر جب کیس حل ہوا تو انہوں نے غسل کیا۔ اور کپڑے بدلے۔اس میں چند دن لگ گئے۔


عمر ورک کو ایک ماہر تفتیشی سمجھا جا تا ہے۔ لیکن اب عمر ورک کا امتحان شروع ہو گیا ہے کہ وہ تفتیش کر کے یہ پتہ لگائیں کہ ان کے بارے میں عمران خان کو کس نے بریفنگ دی ہے۔ کیونکہ عمران خان کے بارے میں یہ کہا جا تا ہے کہ وہ سنی سنائی باتیں بغیر تصدیق میڈیا کے سامنے کر دیتے ہیں۔ شائد اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جھوٹے الزام لگانا کوئی جرم نہیں ہے۔

مزید :

کالم -